جنید جمشید سنگر سے نعت خواں تک کا سفر

جنید جمشید سنگر سے نعت خواں تک کا سفر
سوال سنتے ہی وہ بے اختیار ہنس پڑا۔ ہنسی اس کے چہرے پر پھیل گئی، آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے عینک اتاری، ٹشو سے آنکھیں صاف کیں اور مسکراتے ہوئے بولا:
”یار، تم نے جس انداز سے مجھے مولوی صاحب کہا، میں وہ انجوائے کر رہا ہوں… تھوڑا مجھے یہ لمحہ جینے دو۔“
اور پھر وہ دوبارہ ہنسنے لگا۔ ہنسی تھمی تو بات کا دھارا کھلا۔
”گانے نے مجھے عزت دی، شہرت دی، پیسہ دیا… لیکن جو نہیں دیا، وہ سکون تھا۔
سکون… جو مولوی بن کر ملا۔
اور جب وہ ملا تو لگا کہ بس، یہی ہے اصل خزانہ۔
عزت، شہرت اور دولت مل کر بھی اس ایک نعمت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔“
وہ کچھ لمحے کے لیے خاموش ہو گیا، جیسے یادوں میں کھو گیا ہو۔
”میں ویمبلے میں پرفارم کرنا چاہتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ میرا خیمہ بیچ میں ہو، باقی فنکاروں کے خیمے اردگرد۔
1992ء میں گیا تو امیتابھ بچن کا خیمہ مرکز میں تھا۔
لوگ اس کے ہاتھ چوم رہے تھے، تصویریں بنوانے کے لیے ایک دوسرے کو روند رہے تھے۔ میں نے یہ منظر دیکھا اور دل میں سوال اٹھا، کیا میں کبھی اس مقام پر پہنچ سکوں گا؟“
”اللہ نے سن لی۔ کچھ ہی سال بعد میرا خیمہ وہیں تھا، لاکھوں لوگ میرے گرد، میرے نام پر دیوانے۔
لیکن اسی ہجوم میں ایک احساس جاگا…
میں کامیاب ضرور تھا، لیکن اندر سے خالی۔
سکون، جو اندر کی گہرائی سے آتا ہے، وہ کہیں کھو چکا تھا۔
میں نے جانا، سکون عزت اور شہرت سے کہیں بڑا خزانہ ہے۔“
”دل دل پاکستان، سانولی سلونی… سب کچھ میرے ساتھ جڑ چکا تھا۔
لوگ جھومتے، گاتے، تصویریں لیتے، لیکن میں اب خود سے سوال کرتا تھا: کیا یہی کافی ہے؟
پھر اللہ نے کرم کیا۔ ایک دن مولانا طارق جمیل سے ملاقات ہوئی، اور زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔
ایسا لگا جیسے ایک دروازہ کھلا اور میں اندر چلا گیا۔“
”شروع میں مذاق سمجھا، شوق شوق میں تبلیغی چلے لگا لیے۔
لیکن رفتہ رفتہ دل کے اندر کچھ اترتا گیا۔
پھر جب پلٹ کر واپس آیا، گانے کی دنیا میں، تو خود کو اجنبی پایا۔
چند دن بعد ہی لگا، جنید! تم تو بھٹک رہے ہو۔
ایک روز بیٹھا اور خود سے سودا کیا۔
اللہ کے نام پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا سودا۔
اور پھر… سب چھوڑ دیا۔ شہرت، عزت، روزگار… سب کچھ۔“
”آسان نہیں تھا۔
فینز، تصویریں، آٹوگرافس… میری پہچان بن چکے تھے۔
گانا میری زندگی تھی، لیکن میں نے اللہ کے نام پر قربان کر دیا۔
اور پھر اس سوداگری کا نتیجہ؟
اللہ نے وہ سب کچھ، ستر گنا کر کے لوٹا دیا۔“
”میں نے رومال تک نہیں بنایا تھا، آج میرا نام پاکستان کے سب سے بڑے برانڈ کے ساتھ جڑا ہے۔
میں جس نعت کو پڑھتا ہوں، لوگ اس پر روتے ہیں، ہاتھ چومتے ہیں۔
کل تک میں جینز میں اسٹیج پر ناچتا تھا، لوگ مجھے اپنے بچوں سے دور رکھتے تھے۔
آج میں ٹوپی پہنے، منبر رسولؐ پر بیٹھتا ہوں، لوگ دعائیں کرواتے ہیں۔
یہ اللہ کی وہ دین ہے جو صرف اسی کو ملتی ہے، جو سچے دل سے قربانی دیتا ہے۔“
میں سن رہا تھا… خاموش، گم سم۔
پھر وہ ایک لمحے کو رکا اور بولا:
”میں اللہ کا قانون ٹیسٹ کر رہا تھا۔
جو اس کے نام پر قربانی دیتا ہے، وہ مایوس نہیں ہوتا۔
میں نے سچ میں اپنی پہچان، اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں دیا…
اور اللہ نے مجھے ستر گنا کر کے لوٹایا۔“
اس کی بات ختم ہوئی۔
لیکن حقیقت اس کی بات سے آگے نکل چکی تھی۔
7 دسمبر کو جب جنید جمشید کے ائیر کریش کی خبر آئی،
اور 15 دسمبر کو کراچی میں جنازہ ہوا،
تو سچائی واضح ہو چکی تھی۔
اس کا جنازہ کسی مسجد میں نہیں، اسٹیڈیم میں ہوا۔
لاکھوں لوگ، تا حد نظر سر ہی سر، ہاتھ ہی ہاتھ۔
ایئرفورس نے گارڈ آف آنر دیا، پرچم میں لپیٹا، سی-130 میں کراچی منتقل کیا۔
یہ اعزاز کسی اور گلوکار کو آج تک نصیب نہیں ہوا۔
مہدی حسن، نصرت، نورجہاں، صابری برادران… سب موسیقی کے شہنشاہ تھے،
لیکن ایسی رخصتی؟ کسی کو نہ ملی۔
تو کیا یہ سب کچھ کسی تصنع کا نتیجہ تھا؟
نہیں…
یہ اس سودے کا انعام تھا، جو جنید نے اللہ سے کیا تھا۔
عزت، دولت، شہرت… اللہ کی راہ میں قربان کرو،
تو وہ انھیں ستر گنا کر کے واپس کرتا ہے۔
یہی اللہ کا وعدہ ہے…
اور اس کی اسٹاک مارکیٹ کبھی کریش نہیں ہوتی۔