FocusNews Pakistan Largest News Network فوکس نیوز

نومولود بچے کو ماں کے سینے پر لیٹانے کی خصوصیقدرتی حکمت

نومولود بچے کو ماں کے سینے پر لیٹانے کی خصوصی قدرتی حکمت

نومولود بچے کو ماں کے سینے پر لیٹانے کی خصوصی قدرتی حکمت

نومولود بچے کو ماں کے سینے پر لیٹانے کی خصوصی قدرتی حکمت

پیدائش کے فوراً بعد، جب بچہ پہلی بار دنیا میں آنکھ کھولتا ہے، تو سب سے پہلا لمس جو اسے ملنا چاہیے، وہ ماں کے سینے کا ہونا چاہیے۔ یہ کوئی جدید دریافت نہیں، بلکہ قدرت کا ازلی اصول ہے کہ نومولود کم از کم ایک گھنٹے تک ماں کے سینے سے لگا رہے۔ اسی لیے تو نال کی لمبائی قدرت نے پچاس سے ساٹھ سینٹی میٹر رکھی ہے، بالکل اتنی کہ بچہ آرام سے ماں کے سینے تک پہنچ سکے۔

یہ محض جذباتی وابستگی نہیں، بلکہ بچے کے جسمانی حق کی تکمیل بھی ہے۔ پیدائش کے لمحے، بچے کا تقریباً ایک چوتھائی خون ابھی بھی نال اور ماں کی جھلی میں موجود ہوتا ہے۔ اگر نال کو کم از کم پچیس منٹ تک نہ کاٹا جائے تو بچہ وہ سارا خون جذب کر لیتا ہے، جو اُسے نہ صرف خون کی کمی سے بچاتا ہے بلکہ اُسے ایک مضبوط آغاز فراہم کرتا ہے۔

یہ صرف خون ہی نہیں ہوتا، بلکہ اس میں شامل ہوتے ہیں وہ انمول خلیے – سٹیم سیلز – جو بچے کے جسم کو مرمت، نشو و نما اور زندگی کے ابتدائی مراحل میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ خلیے بچے کے اپنے ہیں، اُسے واپس ملنے چاہئیں، نہ کہ کسی لیبارٹری یا بینک میں رکھے جائیں۔

قدرتی دنیا ہمیں سبق دیتی ہے۔ جانور بھی فوراً نال نہیں کاٹتے۔ وہ انتظار کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ قدرت کا ہر عمل وقت کا پابند ہوتا ہے۔ صرف انسان ہے جو عجلت میں نال کاٹ کر فطرت کے اس عمل کو ادھورا چھوڑ دیتا ہے — اور یہی وہ پہلا جسمانی و ذہنی جھٹکا ہوتا ہے جو ہم بچے کو دنیا میں خوش آمدید کہتے ہوئے دے دیتے ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ نال اس وقت کاٹی جائے جب وہ خود ہی دھڑکنا بند کر دے۔ کم از کم پچیس منٹ کا وقت، بچہ اور ماں دونوں کو وہ رابطہ دیتا ہے جس کی بنیاد پر آنے والی زندگی کا توازن قائم ہوتا ہے۔

’’ولادت اللوتس‘‘ صدیوں پرانی روایت ہے۔ اگر یہ فطری طریقہ نقصان دہ ہوتا تو انسانیت شاید باقی نہ رہتی۔ آج ترقی یافتہ ممالک میں یہی اصول اپنائے جا رہے ہیں جنہیں ہم نے ترک کر دیا ہے۔ ہم وہی قیمتی سٹیم سیلز — جو بچے کا قدرتی ورثہ ہیں — بینکوں میں جمع کرا دیتے ہیں، اور اس عمل کو ترقی کا نام دیتے ہیں۔

حالانکہ یہ خلیے نو ماہ ماں کی کوکھ میں پلنے والی اس جھلی سے آتے ہیں، جو باپ کی روشنی سے تشکیل پاتی ہے اور ماں کی حرارت سے سانس لیتی ہے۔ ہم سب باپ کے بیج اور ماں کی زمین سے پھوٹتے ہیں۔ دو پاکیزہ قوتیں — ایک روشنی، ایک گہرائی — اور ان کے امتزاج سے پیدا ہونے والی زندگی۔

ایک دن ہم دوبارہ پہچانیں گے کہ اصل محبت، اصل تعلق، اصل علاج یہی ہے — مرد و عورت کا فطری اتحاد، پانی و مٹی کا میل، اور ماں کے لمس سے جُڑی پہلی سانس۔

آج لگتا ہے جیسے ہم پاکستان میں قدرتی طریقوں کو اپنانے کی بات کرتے ہیں، لیکن عمل میں وہی چیزیں نظر آتی ہیں جو قدرت سے دور لے جاتی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بیرونِ ملک، آج انہی فطری اصولوں کو سائنس کے دائرے میں لا کر اپنایا جا رہا ہے — اور ہم، اپنی لاعلمی میں، اپنے بچوں سے وہ حق چھین لیتے ہیں جو قدرت نے ان کے لیے چُنا تھا۔

ہم نے وہ فطری راستہ چھوڑ دیا جو ہماری اپنی میراث تھا، اور جنہیں ہم نے کبھی سکھایا تھا، وہی آج ہمیں فطرت کا سبق پڑھا رہے ہیں۔

Previous Post
Next Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »