FocusNews Pakistan Largest News Network فوکس نیوز

مصنوعی رحم میں بچے کی پرورش

مصنوعی رحم میں بچے کی پرورش

مصنوعی رحم میں بچے کی پرورش

مصنوعی رحم میں بچے کی پرورش

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مستقبل میں بچہ ماں کے پیٹ میں نہیں بلکہ ایک مصنوعی رحم میں پیدا ہو؟ سائنسدان اور کمپنیاں اب اس خواب کو حقیقت بنانے کے بہت قریب پہنچ چکی ہیں۔ ایک کمپنی جس کا نام EctoLife ہے، وہ دنیا کی پہلی مصنوعی رحم ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے، جس میں بچے کو ایک شفاف کیپسول میں ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے جو قدرتی رحم جیسا ہو۔ اس نظام کی بدولت ماں کے جسم کے بغیر بھی بچے کی مکمل نشوونما ممکن ہو سکے گی۔

یہ نظام بنیادی طور پر تین اہم طریقوں سے کام کرتا ہے۔ سب سے پہلے، بچے کو ایک خاص فلوئیڈ میں رکھا جاتا ہے جو رحم کے پانی (amniotic fluid) کی مانند ہوتا ہے۔ دوسرا، والدین موبائل ایپ کے ذریعے بچے کی نشوونما کی مسلسل نگرانی کر سکتے ہیں۔ اور تیسرا، مستقبل میں جینیاتی ایڈیٹنگ کے ذریعے والدین بچے کی خصوصیات جیسے جلد، آنکھوں یا بالوں کے رنگ کا انتخاب بھی کر سکیں گے۔

مستقبل میں اس ٹیکنالوجی سے کئی امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ نازک صحت والی خواتین یا بانجھ افراد کے لیے اولاد کی امید دوبالا ہو جائے گی، اور خطرناک حمل یا زچگی کے مسائل میں کمی آئے گی۔ مزید برآں، ممکن ہے کہ انسانوں کی پیدائش کے لیے مخصوص فارمز کھل جائیں جہاں مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد مثلاً ذہانت، جسمانی قوت یا دوسری خصوصیات کے مطابق انسان تخلیق کیے جائیں، جن میں جدید کمپیوٹرز اور مشینیں نصب ہو سکیں اور ان کے سافٹ ویئر کو تبدیل یا اپڈیٹ کیا جا سکے۔

اگرچہ کچھ لوگ اس جدت پر شک کر سکتے ہیں، مگر حقیقت کو نظرانداز کرنے سے دنیا کے حقائق نہیں چھپ سکتے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق اس فیلڈ میں سرمایہ کاری کے بہترین امکانات موجود ہیں اور پڑھے لکھے مسلمان بھی اس تبدیلی سے نمٹنے کے لیے نئی دنیا پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں بغیر کسی منطق کے صرف اندھی تنقید کرنے کی بجائے بدلتی دنیا کے حقائق پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

اس نئی ٹیکنالوجی کے اخلاقی، مذہبی اور قانونی پہلو بھی اُبھریں گے—کیا معاشرہ اسے قبول کرے گا؟ یہ سائنس کا نیا دور ہو سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسان اس کے لیے واقعی تیار ہے؟ آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا مصنوعی رحم کا نظام قدرتی پیدائش کا حقیقی متبادل بن سکے گا؟

Previous Post
Next Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »