مائیکروچپ ایک نئی سائینسی ایجاد یا اندیشہ؟

مائیکروچپ ایک نئی سائینسی ایجاد یا اندیشہ؟
حال ہی میں چین کی جانب سے ایک تصویر منظرِ عام پر آئی ہے جس میں ایک نہایت چھوٹی سی مائیکرو چِپ دکھائی گئی ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی ایجاد لگتی ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپی حقیقت خاصی گہری اور پیچیدہ ہے۔ اس چِپ کا سائز چاہے جتنا بھی چھوٹا ہو، یہ دراصل ایک مکمل نظام کی نمائندہ ہے—ایک ایسا نظام جو جدید ٹیکنالوجی، انسانی زندگی، پرائیویسی اور فکری خدشات کو آپس میں جوڑتا ہے۔
یہ مائیکرو چِپ دراصل انسانی ناخن سے بھی چھوٹی ہوتی ہے، اور آج کی دنیا میں اسے کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے بات کریں میڈیکل فیلڈ کی، تو ایسی چپس مریض کے جسم کے اندر نصب کر کے دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر، شوگر لیول اور دیگر اہم علامات پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ کچھ چپس دوا کے اثرات کو بھی مانیٹر کرتی ہیں اور یہ ڈیٹا براہِ راست ڈاکٹروں کو بھیج دیتی ہیں، تاکہ علاج میں آسانی ہو۔
دوسری طرف، کچھ ترقی یافتہ ممالک میں ان چپس کو انسانوں کے جسم میں شناخت کے لیے استعمال کرنے کے تجربات بھی کیے جا رہے ہیں۔ تصور کریں کہ ایک چھوٹی سی چِپ کے ذریعے شناختی کارڈ، میڈیکل ریکارڈز، اور بینکنگ سسٹم تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ بغیر کسی کارڈ یا فون کے صرف ہاتھ ہلا کر ادائیگی ممکن ہو جاتی ہے، جبکہ سیکیورٹی سسٹمز میں بھی یہ چپس اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
سمارٹ دنیا کی بات کی جائے تو ان چپس کا کردار مزید بڑھ جاتا ہے۔ یہ سمارٹ ڈیوائسز، گھروں اور گاڑیوں کو آپس میں جوڑ دیتی ہیں۔ RFID اور GPS جیسے سسٹمز کے ذریعے بچوں، جانوروں یا بزرگوں کی لوکیشن ٹریک کی جا سکتی ہے۔ بہت سے خودکار سسٹمز تو ایسے ہیں جو ان چپس کے سگنلز کی بنیاد پر فیصلے بھی خود لینے لگے ہیں۔
لیکن جہاں فائدے ہیں، وہاں خدشات بھی ہیں۔ کچھ ماہرین اور عوام یہ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایسی چپس مستقبل میں انسانوں کی مکمل نگرانی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ان سے جڑے کئی مشہور سازشی نظریات بھی گردش میں ہیں، جیسے کہ “New World Order”، دجالی نظام، یا انسانوں پر مکمل کنٹرول۔ بعض افراد تو ان چپس کو قیامت کی اُن نشانیوں سے بھی جوڑتے ہیں جن میں انسانوں پر مہر لگانے کا ذکر آتا ہے۔
اسلامی اور روحانی زاویے سے بھی اس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے۔ کچھ افراد اسے دجالی فتنہ سمجھتے ہیں، لیکن اکثر علماء کا کہنا ہے کہ جب تک یہ چِپ زبردستی نہ لگائی جائے، عقیدے پر اثر نہ ڈالے اور شریعت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو، تب تک یہ محض ایک ایجاد ہے، کوئی فتنہ نہیں۔
اگر ان چپس کے فوائد کی بات کریں تو یہ بیماریوں کی بروقت نگرانی، سمارٹ زندگی کی سہولت، اور بہت سی پیچیدگیاں آسان بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی ہے کہ یہ انسانی آزادی کو محدود کر دے، پرائیویسی ختم ہو جائے، اور انسان ایک “ڈیجیٹل غلام” بن کر رہ جائے۔
آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ٹیکنالوجی ایک نعمت ہے یا خاموش غلامی کا آغاز؟ ٹیکنالوجی بذاتِ خود نہ اچھی ہوتی ہے نہ بری، اصل چیز اس کے استعمال کی نیت اور طریقہ ہے۔ فیصلہ ہمیں اور آپ کو مل کر کرنا ہے—شعور کے ساتھ، نہ کہ محض جذبات کی بنیاد پر۔