لیتھئیم بیٹری ایک شاندار ایجاد

لیتھئیم بیٹری ایک شاندار ایجاد
لیتھیم بیٹری ایک شاندار سائنسی ایجاد ہے جو آج کی دنیا میں توانائی ذخیرہ کرنے کا سب سے قابلِ بھروسہ اور مؤثر ذریعہ بن چکی ہے۔ اس بیٹری کا تصور اور تکمیل کئی دہائیوں پر محیط ہے، جس میں مختلف سائنسدانوں کی مسلسل تحقیق، تجربات، اور اختراعات شامل ہیں۔ لیتھیم، جو ایک ہلکی اور طاقتور دھات ہے، سب سے پہلے 1817 میں سویڈن کے کیمیا دان Johan August Arfvedson نے دریافت کی۔ مگر اس کی بیٹری کی شکل میں استعمال کی کہانی کئی سال بعد شروع ہوئی۔ 1970 کی دہائی میں Stanley Whittingham نے پہلی بار ایک ابتدائی لیتھیم بیٹری کا تصور پیش کیا، جس میں خالص لیتھیم دھات استعمال ہوتی تھی۔ یہ بیٹری کام تو کرتی تھی لیکن بہت غیر مستحکم اور خطرناک تھی کیونکہ خالص لیتھیم آگ پکڑ سکتا تھا۔ اس کے بعد 1980 میں John B. Goodenough نے ایک زیادہ محفوظ اور طاقتور کیتھوڈ مواد، لیتھیم کوبالٹ آکسائیڈ (LiCoO₂)، دریافت کیا، جس سے بیٹری کی کارکردگی اور حفاظت میں زبردست بہتری آئی۔ پھر 1985 میں Akira Yoshino نے لیتھیم آئن بیٹری کو مکمل اور قابلِ استعمال شکل دی، جس میں خالص لیتھیم کی جگہ گریفائٹ پر مبنی اینوڈ استعمال کیا گیا، جو محفوظ، بار بار چارج ہونے والی اور مستحکم تھی۔ یہی وہ بیٹری تھی جس نے آج کے موبائل فون، لیپ ٹاپ، الیکٹرک کارز اور سولر سسٹمز کو ممکن بنایا۔ ان تینوں سائنسدانوں کو ان کی اس عظیم ایجاد پر 2019 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔
لیتھیم بیٹری کی اندرونی ساخت نہایت پیچیدہ مگر خوبصورتی سے منظم ہوتی ہے۔ اس کے اندر دو اہم پلیٹیں ہوتی ہیں: کیتھوڈ (مثبت پلیٹ) اور اینوڈ (منفی پلیٹ)۔ کیتھوڈ عام طور پر لیتھیم آکسائیڈز پر مشتمل ہوتی ہے، جیسے لیتھیم کوبالٹ آکسائیڈ یا لیتھیم آئرن فاسفیٹ، اور اسے ایلومینیم کی پتلی پرت پر چڑھایا جاتا ہے۔ اینوڈ گریفائٹ (کاربن) سے تیار کیا جاتا ہے اور یہ تانبے کی پرت پر موجود ہوتا ہے۔ ان دونوں پلیٹوں کے درمیان ایک باریک، نیم شفاف فلم نما سیپریٹر رکھا جاتا ہے جو دونوں کو آپس میں ملنے سے بچاتا ہے، تاکہ شارٹ سرکٹ نہ ہو، مگر آئنز کو آزادانہ گزرنے دیتا ہے۔ یہ تمام تہیں ایک مخصوص ترتیب سے رکھی جاتی ہیں: پہلے اینوڈ، پھر سیپریٹر، پھر کیتھوڈ، اور یہی ترتیب تہہ بہ تہہ دہرائی جاتی ہے۔ پھر ان تہوں کو رول یا فولڈ کر کے ایک خاص خول میں رکھا جاتا ہے، جسے سلنڈر، پاؤچ یا پرزماٹک شکل دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں ایک خاص مائع الیکٹرولائٹ شامل کیا جاتا ہے جو لیتھیم آئنز کو اینوڈ اور کیتھوڈ کے درمیان حرکت کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس پورے نظام کو مکمل سیل کر کے ایک محفوظ کیس میں بند کر دیا جاتا ہے تاکہ نہ ہوا داخل ہو اور نہ نمی، کیونکہ یہ اندرونی کیمیائی توازن کے لیے نہایت حساس ہوتا ہے۔
لیتھیم بیٹری کا سارا جادو انہی پلیٹوں اور آئنز کی حرکت میں چھپا ہے۔ جب بیٹری چارج ہوتی ہے تو لیتھیم آئنز کیتھوڈ سے نکل کر الیکٹرولائٹ کے ذریعے اینوڈ کی طرف جاتے ہیں اور گریفائٹ کی پرت میں ذخیرہ ہو جاتے ہیں۔ جب ہم بیٹری استعمال کرتے ہیں (یعنی ڈسچارج کرتے ہیں) تو یہ آئنز واپس کیتھوڈ کی طرف آتے ہیں اور اسی عمل سے بجلی پیدا ہوتی ہے جو ہمارے موبائل، لیپ ٹاپ یا دیگر آلات کو توانائی دیتی ہے۔ اس مکمل عمل میں کوئی ایندھن نہیں جلتا، کوئی شور نہیں ہوتا، کوئی دھواں نہیں اٹھتا — صرف ایک خاموش، بااعتماد، اور طاقتور توانائی کا بہاؤ ہوتا ہے۔
لیتھیم بیٹری کی یہ پیچیدہ ساخت درحقیقت ایک انجینئرنگ کا شاہکار ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ کس طرح ایک چھوٹے سے پیکج میں اتنی زبردست صلاحیت چھپی ہوئی ہے۔ ایک موبائل فون کی بیٹری ہو یا ایک بڑی الیکٹرک گاڑی کی، ہر بیٹری کے اندر یہی خوبصورت کیمیا اور انجینئرنگ کارفرما ہوتی ہے۔ یہی وہ تجسس ہے جو ہر بار جب ہم کسی ڈیوائس کو آن کرتے ہیں، ہمیں احساس دلاتا ہے کہ سائنس نے ہمیں کس قدر حیرت انگیز سہولت دی ہے — اور شاید یہی وہ تجسس ہے جو ہمیں مزید سیکھنے، سمجھنے اور آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔