فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی: غزہ اور مغربی کنارے میں جاری انسانی المیہ

فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی ایک سنگین انسانی بحران ہے جو 2023 کے اکتوبر سے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں شدت اختیار کر گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں نسل کشی کی تعریف پر پورا اترتی ہیں، جس میں شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں، بھوک اور بیماریوں کا استعمال ہتھیار کے طور پر، اور جبری نقل مکانی شامل ہیں۔ 2025 تک، غزہ میں 52,000 سے زائد فلسطینی ہلاک اور 117,000 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت خواتین اور بچے ہیں۔ اس کے علاوہ، 1.9 ملین فلسطینیوں (غزہ کی 85% آبادی) کو جبری طور پر بے گھر کیا گیا ہے، جو کئی بار نقل مکانی کا سامنا کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے ماہرین نے مارچ 2025 میں خبردار کیا کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری “خالی جگہ کے احکامات” (evacuation orders) سے فلسطینیوں کی جبری بیدخلی ہو رہی ہے، خاص طور پر شمالی غزہ میں جہاں آدھے سے زیادہ علاقہ متاثر ہے۔ اپریل 2025 کی ایک اقوام متحدہ کی دستاویز میں بتایا گیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو طبی امداد سے محروم رکھا، ان پر بمباری کی، اور ان کی زمینوں پر قبضہ کیا، جو نسل کشی کا واضح ثبوت ہے۔ اسی طرح، جولائی 2025 میں اسرائیلی انسانی حقوق تنظیموں B’Tselem اور Physicians for Human Rights نے بھی تسلیم کیا کہ غزہ میں اسرائیل کی کارروائیاں نسل کشی ہیں، جن میں ہزاروں خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی ہلاکتیں، بڑے پیمانے پر تباہی، اور امداد کی روک تھام شامل ہیں۔
مغربی کنارے (West Bank) میں صورتحال مزید خراب ہے۔ جون 2025 تک، اسرائیلی فوج کی کارروائیوں سے 80 سے زائد فلسطینی ہلاک اور 40,000 سے زیادہ بے گھر ہوئے، خاص طور پر جنین اور تل کرم کیمپوں میں۔ امnesty انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج نے گھروں، سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا، جو فلسطینیوں کو جبری بیدخلی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ستمبر 2025 میں اقوام متحدہ کی ایک تحقیقاتی کمیشن نے بھی تصدیق کی کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، جس میں شہریوں کی ہلاکتیں، بھوک کا استعمال، اور جبری نقل مکانی شامل ہیں۔ اس کمیشن نے تمام ممالک سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو روکیں اور ذمہ داروں کو سزا دیں۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ سکالرز نے اگست 2025 میں قرارداد منظور کی کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، اور اسے فوری روکنے کا مطالبہ کیا۔ مصر نے بھی ستمبر 2025 میں اعلان کیا کہ وہ فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر جبری بیدخلی کی اجازت نہیں دے گا، اور اسے نسل کشی قرار دیا۔ یہ بحران نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی، جہاں اسرائیل کی کارروائیوں نے غزہ کی صحت، تعلیم اور پانی کی سہولیات کو تباہ کر دیا ہے۔
یہ صورتحال فلسطینیوں کی بقا پر سوال اٹھاتی ہے۔ کیا عالمی برادری اسرائیل پر دباؤ ڈال کر اس نسل کشی کو روک سکے گی؟ کیا جبری بیدخلی فلسطینیوں کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گی؟ یہ سوالات مسلم دنیا اور عالمی سطح پر گردش کر رہے ہیں، جہاں فوری جنگ بندی اور انصاف کی ضرورت ہے۔