FocusNews Pakistan Largest News Network فوکس نیوز

گروپ تھنک کیا ہے؟

گروپ تھنک کیا ہے؟

گروپ تھنک کیا ہے؟

گروپ تھنک کیا ہے؟

لوگ تمہیں تب تک اچھا سمجھیں گے، جب تک تم ان سے متفق رہو”

گروپ تھنک کا جال

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اختلافِ رائے کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا؟ زیادہ تر لوگ اپنے گروپ، خاندان، یا دوستوں کے خیالات سے متفق رہنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے وہ اندرونی طور پر ان سے اختلاف رکھتے ہوں۔ اس رویے کو نفسیات میں “گروپ تھنک” (Groupthink) کہا جاتا ہے، جو ہماری زندگی کے بڑے فیصلوں پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی نوجوان خاندان کی مرضی کے خلاف کوئی غیر روایتی کیریئر چنتا ہے، تو اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یا اگر کوئی سیاست، مذہب، یا سماجی معاملات پر “اکثریتی” رائے سے ہٹ کر کچھ کہتا ہے، تو لوگ اسے ناپسند کرنے لگتے ہیں، چاہے اس کی بات حقیقت پر مبنی ہو۔

گروپ تھنک کیا ہے؟

“گروپ تھنک” سائیکالوجی کی ایک اصطلاح ہے، جس کے مطابق لوگ کسی گروہ کے ساتھ چلنے کے لیے اپنی انفرادی سوچ اور عقل کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس اصطلاح کو 1972 میں ماہرِ نفسیات اِروِنگ جینس (Irving Janis) نے متعارف کروایا، جنہوں نے تحقیق کی کہ گروہ کے اندر دباؤ کیسے لوگوں کو عقل مندانہ فیصلے کرنے سے روکتا ہے۔

یہ اثر صرف عام افراد پر نہیں، بلکہ حکومتی پالیسی سازوں، کمپنیوں کے ایگزیکٹوز، اور اداروں کے رہنماؤں پر بھی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے غلط فیصلے کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں گروپ تھنک کی مثالیں

خاندانی دباؤ اور شادی کے فیصلے

اکثر نوجوان، خاص طور پر لڑکیاں، اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں، چاہے وہ جانتی ہوں کہ ان کے لیے بہتر فیصلہ کچھ اور ہو سکتا ہے۔ خاندان کا دباؤ اور “لوگ کیا کہیں گے؟” کا خوف، انہیں وہ فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے جو وہ خود نہیں چاہتیں۔

کیریئر کا انتخاب

انجینئرنگ، میڈیکل، اور سرکاری نوکریوں کو کامیابی کا واحد معیار سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی نوجوان آرٹ، فری لانسنگ، یا کوئی غیر روایتی کیریئر چننا چاہے تو اکثر اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ اس خوف سے کہ “اگر میں ناکام ہو گیا تو خاندان اور دوست کیا کہیں گے؟”، لوگ اپنے خوابوں کو ترک کر دیتے ہیں۔

سیاست اور مذہب پر گفتگو

پاکستانی معاشرے میں سیاست اور مذہب پر اختلافی گفتگو کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی پارٹی یا فرقے کے عمومی بیانیے سے ہٹ کر بات کرے، تو اسے فوراً غدار، بے دین، یا جاہل قرار دے دیا جاتا ہے، چاہے اس کے دلائل کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں۔

لوگ کیوں بھیڑ چال کا شکار ہوتے ہیں؟

1951 میں ایک مشہور ماہرِ نفسیات سولومن ایش (Solomon Asch) نے ایک تجربہ کیا، جس میں لوگوں کو ایک گروپ میں شامل کیا گیا اور ان کے سامنے چند سادہ سوالات رکھے گئے۔

یہ سوالات اتنے آسان تھے کہ ہر کوئی ان کا صحیح جواب دے سکتا تھا۔ لیکن گروپ میں شامل کچھ لوگ، جو اصل میں تجربے کے ساتھی تھے، جان بوجھ کر غلط جواب دیتے۔ حیران کن طور پر، جب عام افراد نے دیکھا کہ زیادہ تر لوگ ایک غلط جواب دے رہے ہیں، تو وہ بھی اپنا درست جواب چھوڑ کر اکثریت کے ساتھ چلنے لگے۔

یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ لوگ اکثر سچ جاننے کے باوجود، صرف گروپ سے باہر ہونے کے خوف سے، اپنے اصل خیالات کو دبا دیتے ہیں۔

گروپ تھنک کے نقصانات

اختلافِ رائے دب جاتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں ترقی رک جاتی ہے۔

غلط فیصلے لیے جاتے ہیں، کیونکہ لوگ اکثریت کے دباؤ میں آ کر جذباتی فیصلے کر لیتے ہیں۔

نئی سوچ اور خیالات پنپ نہیں پاتے، اور سب ایک جیسے خیالات کو دہرانے لگتے ہیں۔

انسانی حقوق اور انصاف متاثر ہوتا ہے، کیونکہ کوئی بھی غیر مقبول رائے کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

اس جال سے کیسے بچا جائے؟

1. اپنی رائے کو پہچانیے: اپنی سوچ کو دوسروں کے اثر سے آزاد کرنے کی کوشش کریں اور اپنے اندرونی خیالات کا تجزیہ کریں۔

2. سوالات کریں: جو بھی معلومات آپ تک پہنچے، اس پر غور کریں اور تحقیق کریں کہ آیا یہ حقیقت پر مبنی ہے یا محض اکثریتی رائے کا نتیجہ۔

3. نئی سوچ کو قبول کریں: وہ خیالات جو عام نہیں ہیں، وہ بھی سننے اور سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

4. تنقید سے نہ گھبرائیں: اگر آپ کی رائے حقیقت پر مبنی ہے، تو محض لوگوں کے ناراض ہونے کے خوف سے اسے تبدیل نہ کریں۔

5. صحیح فیصلے کے لیے مختلف آراء سنیں: کسی بھی بڑے فیصلے سے پہلے مختلف نظریات اور خیالات کو سنیں، بجائے اس کے کہ صرف اکثریت کے دباؤ میں آئیں۔

پاکستان میں سچ بولنے، مختلف رائے رکھنے، یا اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے لیے ہمت چاہیے۔ “گروپ تھنک” ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم بھیڑ کے ساتھ چلیں، چاہے ہمیں پتہ ہو کہ راستہ غلط ہے۔ لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے فیصلے حقیقت اور منطق پر مبنی ہوں، تو آپ کو اس نفسیاتی جال کو پہچاننا اور اس سے باہر نکلنا ہوگا۔

Previous Post
Next Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »