باسٹھ برس کے دلاور خان سکول میں داخل کیوں ہوئے
اکثر لوگ 60 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے کر باقی زندگی آرام کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں مگر دلاور خان نے اس عمر میں پرائمری سکول جانے کا عزم کیا۔
عام طور پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے بچوں کو چار یا پانچ سال کی عمر میں سکول میں داخل کرا دیا جاتا ہے لیکن دلاور خان نے 62 سال کی عمر میں سکول میں داخلہ لیا۔
دلاور خان کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر کے علاقے تیمر گرہ سے ہے۔ ان کے علاقے میں سب انھیں پہچاننے لگے ہیں اور وہ ان لوگوں کے لیے مثال بن گئے ہیں جو تعلیم حاصل نہیں کر پائے۔
دلاور خان صبح سویرے ایک لفافے میں کتابیں اور کاپیاں لے کر سکول جاتے ہیں۔ کلاس روم میں ان کے پوتے پوتیوں کی عمر کے بچے بیٹھے ہوتے ہیں اور ایک کونے میں دلاور خان کے لیے ایک کرسی رکھی جاتی ہے، جہاں وہ اپنے استاد کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان کی تعلیم حاصل کرنے کی ویڈیو اور پوسٹس سامنے آئیں تو ہم بھی ان سے ملنے تیمر گرہ پہنچ گئے۔
وہ میڈیا میں کسی سے بھی ملاقات کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں اور اس کی انھوں نے مختلف وجوہات بھی بتائیں لیکن وہ اتنے فرماں بردار شاگرد ثابت ہوئے کہ اپنے استاد کا کہنا ٹال نہیں سکے اور ہم سے ملاقات پر راضی ہو گئے۔
دلاور خان کے سر اور داڑھی کے بال سفید ہیں۔ وہ سادہ سے انسان ہیں، جو چھوٹی چھوٹی بات پر خوش ہو جاتے ہیں اور چھوٹی سی بات پر ناراض بھی جلدی ہو جاتے ہیں۔
وہ سادہ لباس میں چادر اوڑھے اپنے پرائمری سکول میں ہمارے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اپنی کہانی سناتے ہوئے کبھی وہ قہقہہ لگاتے تو کبھی ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر بکھر جاتی۔
میں نے جب ان سے پوچھا کہ انھوں نے بچپن میں تعلیم کیوں حاصل نہیں کی تو انھوں نے بتایا کہ میں پڑھنا چاہتا تھا مگر کام کاج میں والد کا ہاتھ بٹانا تعلیم کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔
دلاور خان نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ تبلیغ کے لیے رائیونڈ گئے اور وہاں سے انھیں صوبہ پنجاب کے شہر لیہ میں تبلیغ کے لیے بھیجا گیا۔
’وہاں ایک تعلیم یافتہ شخص تھا، جس کی داڑھی نہیں تھیں مگر وہ تعلیم یافتہ شخص دینی کتاب سے پڑھ کر درس دیتا تھا حالانکہ ہمارے امیر کو پڑھنا نہیں آتا تھا۔ بس یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے احساس ہوا کے پڑھائی کتنی ضروری ہے۔‘
’ادھر ہی میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ گھر واپس جا کر تعلیم حاصل کرنا شروع کروں گا اور کم از کم اتنی تعلیم ضرور حاصل کروں گا کہ میں دینی کتابیں اور احادیث کی کتابیں خود پڑھ سکوں۔
دلاور خان نے بتایا کہ ’تبلیغ سے واپسی پر انھوں نے سکول جا کر اساتذہ سے ملاقات کی اور انھیں اپنے بارے میں بتایا۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد نثار خان نے کہا کہ میں اساتذہ کے ساتھ مشورہ کر کے بتاؤں گا۔‘
دلاور خان نے مزید بتایا کہ دوسرے روز جب وہ سکول پہنچے تو اساتذہ نے انھیں پڑھنے کی اجازت دے دی۔
’سکول کے ہیڈ ماسٹر اور استاد محمد مشتاق نے مجھے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ مجھے سکول آتے ہوئے ڈیڑھ سال ہو گیا ہے۔ اب میں حدیث کی کتابوں کے ساتھ باقی دینی کتابیں بھی پڑھ سکتا ہوں۔‘
کلاس روم میں بچوں کے ساتھ بیٹھے بزرگ طالبعلم دلاور خان اپنی پڑھائی میں مگن رہتے ہیں۔ وہ استاد سے اجازت لے کر پانی پینے جاتے ہیں، کلاس میں داخل ہونے کے لیے بھی اجازت لیتے ہیں اور استاد کے آنے پر کھڑے ہو کر انھیں سلام کرتے ہیں۔
دلاور خان نے بتایا کہ اس عمر میں تعلیم شروع کرنے کے عمل میں انھیں کوئی مشکل نہیں پیش آئی۔
’مجھے استاد سبق دیتا تو میں یاد کرتا تھا۔ جو لکھنے کا کام ملتا، وہ لکھ لیتا ہوں اور اگر کہیں مشکل پیش آتی ہے تو استاد سے پوچھ لیتا ہوں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’میں بچوں کے ساتھ زیادہ بات نہیں کرتا لیکن جب وہ اپنا سبق پڑھتے ہیں تو مجھے یہ آسانی ہوتی ہے کہ اس سے مجھے بھی اچھی طرح سبق یاد ہو جاتا ہے۔‘
ایک بزرگ طالبعلم کے آنے سے سکول میں اساتذہ بھی حیران تھے لیکن انھوں نے نہ صرف دلاور خان کو عزت دی بلکہ انھیں تعلیم حاصل کرنے میں مدد بھی کی۔
سکول ہیڈ ماسٹر نثار خان نے بتایا کہ یہ ان کے لیے انوکھا امتحان تھا لیکن دلاور خان کے شوق اور ان کی تعلیم کے حصول کی چاہت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں پڑھنے کی اجازت دی اور اور ان کے لیے کلاس روم میں خصوصی انتظامات کیے تاکہ باقی بچے اور اساتذہ اس سے متاثر نہ ہوں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’دلاور خان نے شوق کا اظہار کیا تو ہم نے انھیں خوش آمدید کہا۔ یہ باقی بڑی عمر کے لوگوں کے لیے ایک ایسی روشنی ہیں، جس سے باقی لوگ بھی مستفید ہو سکیں گے۔‘
(بشکریہ:بی بی سی ڈاٹ کام پشاور)