حماس کا زوردار اعلان: آزاد فلسطینی ریاست تک ہتھیار نہیں ڈالیں گے، ٹرمپ کا امن پلان مسترد

حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 21 نکاتی امن پلان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ 2 اکتوبر 2025 کو غزہ سے جاری بیان میں حماس کے ترجمان نے کہا کہ مسلح مزاحمت بین الاقوامی قوانین کے تحت ان کا حق ہے، اور یہ صرف اس وقت ختم ہوگا جب مکمل خودمختار فلسطینی ریاست، جس کی دارالحکومت بیت المقدس ہو، وجود میں آئے۔ یہ بیان امریکی ایلچی سٹیف وٹکوف کے اس دعوے کے بعد آیا کہ حماس ہتھیار ڈالنے کو تیار ہے۔
حماس نے ٹرمپ کے پلان کو فلسطینی حقوق کے منافی اور غزہ کی محاصرہ کو جاری رکھنے کی کوشش قرار دیا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی کلیدی شرط—حماس کا غیر مسلح ہونا—مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور اس اعلان نے جنگ بندی کی کوششوں کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ غزہ میں اب تک 52,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ حماس نے کہا کہ وہ غزہ کی حکومت چھوڑنے کو تیار ہے، لیکن ہتھیار صرف آزاد ریاست کی ضمانت پر ڈالے جائیں گے۔
پاکستان نے حماس کے موقف کی حمایت کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ فلسطینیوں کا مزاحمت کا حق جائز ہے، اور آزاد ریاست ہی تنازع کا واحد حل ہے۔ ایکس پر پاکستانی صارفین نے حماس کی ہمت کو سراہا، جہاں @PakPalestineForum نے لکھا کہ یہ اعلان فلسطینی جدوجہد کی روح کو زندہ رکھتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ردعمل میں کہا کہ حماس کا خاتمہ ہی امن کی راہ ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اعلان دو ریاستی حل کی راہ میں نئی مشکلات کھڑی کر سکتا ہے، خاص طور پر جب ٹرمپ نے مغربی کنارے کے انضمام کو روکنے کا وعدہ کیا ہے۔ حماس کا یہ موقف 2024 میں خلیل الحیا کے بیان کی توسیع ہے، جو 1967 کی سرحدوں پر ریاست کی بات کرتا تھا۔ کیا یہ اعلان جنگ بندی مذاکرات کو ناکام بنا دے گا؟ کیا فلسطینی ریاست کا خواب حقیقت بنے گا؟ مسلم دنیا کے دل ان سوالات سے بے قرار ہیں۔