پنجاب بھر کے 200 سے زائد گوداموں سے ذخیرہ کی گئی گندم قبضے میں لے لی گئی

پنجاب حکومت نے ذخیرہ اندوزوں اور ملوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں صوبے بھر کے 200 سے زائد گوداموں سے ہزاروں ٹن گندم قبضے میں لے لی گئی۔ 18 ستمبر 2025 کو جاری اعداد و شمار کے مطابق، انتظامیہ نے 184 گوداموں کی چیکنگ کی، جس میں سے 88 کو سیل کر دیا گیا اور 75 ہزار 886 میٹرک ٹن سے زائد گندم ضبط کر لی گئی۔ لاہور ڈویژن سے 31 ہزار 906 ٹن، گوجرانوالہ اور گجرات سے 9 ہزار 128 ٹن، سرگودھا سے 1 ہزار 906 ٹن، راولپنڈی سے 6 ہزار 498 ٹن، اور ساہیوال سے 5 ہزار 147 ٹن گندم برآمد ہوئی۔ ترجمان پنجاب حکومت نے بتایا کہ یہ کارروائی آٹے اور گندم کی مصنوعی مہنگائی کو روکنے کے لیے کی گئی ہے، جو حالیہ سیلابوں اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بڑھ رہی تھی۔
حکومت نے ضبط شدہ گندم کو 3 ہزار روپے فی من کی شرح سے مارکیٹ میں فروخت کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس کے بعد 20 کلو آٹے کا تھیلا 1 ہزار 810 روپے میں دستیاب ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام کسانوں کی بہتر قیمت اور عوام کی سستی آٹے کی دستیابی کو یقینی بنائے گا، کیونکہ ملوں نے گندم کو مصنوعی طور پر کم دستیاب بنا کر قیمتیں بڑھا دی تھیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، پچھلے ایک ماہ میں آٹے کی قیمت 1 ہزار 450 سے بڑھ کر 2 ہزار 500 روپے تک پہنچ گئی تھی، جو ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ تھی۔ پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے مزید چھاپوں کا اعلان کیا ہے، اور ملوں پر جرمانے بھی عائد کیے جائیں گے۔
یہ کریک ڈاؤن نگراں حکومت کے دور کی درآمد شدہ گندم کے ذخیرے کے تناظر میں بھی اہم ہے، جہاں 30 لاکھ ٹن سے زائد گندم سرکاری گوداموں میں موجود ہے۔ کسان تنظیموں نے اس کی تعریف کی ہے، لیکن مطالبہ کیا ہے کہ کسانوں سے اضافی گندم کی خریداری بھی شروع کی جائے تاکہ فصل کا انصاف ہو سکے۔ کیا یہ کارروائی مہنگائی کو مستقل طور پر روک پائے گی، یا ذخیرہ اندوز نئی چالاکیں کریں گے؟ کیا حکومت برآمد کی پالیسی پر غور کرے گی تاکہ اضافی گندم کا فائدہ اٹھایا جائے؟ یہ سوالات عوام اور کسانوں کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔