سابق بھارتی جنرل کا پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کے منصوبے کا انکشاف: سندھ طاس معاہدے پر تنقید

سابق بھارتی جنرل لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف “آبی دہشت گردی” کے منصوبے پر غور کیا تھا، جس کا مقصد سندھ طاس معاہدے (IWT) کے تحت پاکستان کو ملنے والے پانی کے بہاؤ کو روکنا یا محدود کرنا تھا۔ ایکس پر گردش کرنے والی پوسٹس اور بی بی سی اردو کے مطابق، پناگ نے کہا کہ 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد بھارتی فوج اور حکومتی حلقوں میں دریائے چناب، جہلم، اور ستلج کے پانی کو روکنے کے منصوبوں پر بات ہوئی، لیکن یہ منصوبہ عالمی دباؤ اور معاہدے کی قانونی پابندیوں کی وجہ سے عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کو “بھارت کے لیے نقصان دہ” قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کی وکالت کی۔
اس انکشاف نے پاک-بھارت تعلقات میں نئی کشیدگی کو جنم دیا ہے، خاص طور پر جب پنجاب میں دریائے چناب اور ستلج میں حالیہ سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی، جس سے 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 33 اموات ہوئیں۔ پاکستانی حکام نے بھارت پر الزام لگایا کہ اس نے ہریکے بیراج اور دیگر ڈیموں سے غیر معمولی پانی چھوڑ کر “آبی جارحیت” کی، جو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ایکس پوسٹس میں پاکستانی صارفین نے اسے “پاکستان کے خلاف سازش” قرار دیا، جبکہ ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ “بھارت پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔”
سندھ طاس معاہدہ 1960 میں ورلڈ بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا، جو پاکستان کو دریائے سندھ، جہلم، اور چناب کا پانی دیتا ہے، جبکہ بھارت کو ستلج، بیاس، اور راوی پر کنٹرول دیا گیا۔ پاکستانی دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ پاکستان نے ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر کی، جس سے بھارت کو معاہدے کا فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ کیا یہ انکشاف پاک-بھارت آبی تنازع کو مزید گہرا کرے گا؟