پاکستان کی توانائی ضروریات کے لیے 55 ارب ڈالر کا جامع منصوبہ: قابل تجدید توانائی پر زور

پاکستان نے اپنی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات پوری کرنے اور پائیدار ترقی کے لیے 55 ارب ڈالر کا جامع منصوبہ تیار کیا ہے، جو قابل تجدید توانائی کے ذرائع، خاص طور پر شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے پر مرکوز ہے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) اور وزارت توانائی کے مطابق، پاکستان کا نصب شدہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 43,775 میگاواٹ ہے، جس میں 59 فیصد تھرمل، 25 فیصد ہائیڈرو، 7 فیصد قابل تجدید (ہوا، شمسی، اور بائیو ماس)، اور 9 فیصد جوہری ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ تاہم، بڑھتی ہوئی طلب، درآمدی ایندھن پر انحصار، اور سرکلر ڈیٹ نے توانائی کے شعبے کو شدید دباؤ میں ڈال رکھا ہے۔ اس منصوبے کے تحت، پاکستان نے 2030 تک 60 فیصد توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، جس میں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت (50,000 میگاواٹ) اور شمسی توانائی کے وسیع امکانات شامل ہیں۔ شمسی توانائی کی تنصیبات 2013 سے بڑھ رہی ہیں، اور 2024 میں 17 گیگاواٹ شمسی پی وی اور 1.25 گیگاواٹ آور لیتھیم آئن بیٹریاں درآمد کی گئیں۔ اس کے علاوہ، 350 ارب روپے کا فین ریپلیسمنٹ پروگرام شروع کیا گیا ہے، جس سے 88 ملین پرانے پنکھوں کو توانائی بچانے والے ماڈلز سے تبدیل کیا جائے گا، جو 5,000 میگاواٹ بجلی بچائے گا۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت چین نے 2005 سے 2024 تک توانائی کے شعبے میں 50 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔ اس منصوبے میں نجی شعبے کی شمولیت، گرڈ کی اپ گریڈیشن، اور پائپ لائن کے ذریعے ایل این جی کی درآمد جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے اس منصوبے کو سراہا، لیکن ناقص پالیسیوں پر تنقید بھی کی۔ ایک ایکس پوسٹ میں کہا گیا کہ “بجلی کی قیمت 17 سینٹ فی یونٹ ہے، جو بھارت اور بنگلہ دیش سے تین گنا زیادہ ہے۔” کیا یہ منصوبہ پاکستان کی توانائی بحران کو حل کر پائے گا؟