بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بڑا سکینڈل: سرکاری افسران کو 23 ارب روپے کے غیر قانونی کیش ٹرانسفر کا انکشاف

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) میں ایک بڑے مالیاتی سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے، جہاں سرکاری افسران کو غیر قانونی طور پر اربوں روپے کے کیش ٹرانسفر کیے گئے۔ ایکس پر موجود پوسٹس اور اے آر وائی نیوز کے مطابق، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ 23 ارب 68 کروڑ روپے سرکاری ملازمین، جن میں گریڈ 17 یا اس سے اوپر کے 2,500 افسران شامل ہیں، کو منتقل کیے گئے۔ یہ رقوم غریب خاندانوں کے لیے مختص تھیں، لیکن مبینہ طور پر سرکاری افسران نے اپنی بیویوں اور رشتہ داروں کے نام استعمال کر کے یہ فنڈز حاصل کیے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان (AGP) نے جنوری 2023 میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) کو مطلع کیا تھا کہ 19 ارب روپے غیر قانونی طور پر 143,000 سرکاری ملازمین کو دیے گئے۔ 2023-24 کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق، 3 ملین سے زائد مستفید افراد کے پاس رجسٹرڈ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) نہیں تھا، پھر بھی 116.95 ارب روپے بغیر تصدیق کے منتقل کیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاروباری افراد اور دیگر غیر اہل افراد نے بھی فنڈز حاصل کیے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) کو اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے، لیکن صوبوں بشمول پنجاب، سندھ، بلوچستان، اور خیبرپختونخوا میں بدعنوانی کے مسائل بدستور موجود ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، ادائیگی کے مراکز پر 300 سے 500 روپے فی واپسی کے اضافی چارجز اور جعلی ادائیگیوں کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ ایکس پر صارفین نے اسے “غریبوں کے حق پر ڈاکہ” قرار دیا، جبکہ ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ “یہ پروگرام غریبوں کے لیے تھا، لیکن افسران اسے لوٹ رہے ہیں۔”
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام 2008 میں شروع کیا گیا تھا تاکہ غریب خاندانوں کو مالی امداد فراہم کی جا سکے، لیکن بدعنوانی نے اس کے مقاصد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کیا یہ سکینڈل پروگرام کی ساکھ کو مزید متاثر کرے گا؟