شوہر اگر جوتی میں دال رکھ کر بھی دے تو۔۔۔

شوہر اگر جوتی میں دال رکھ کر بھی دے تو۔۔۔
“شوہر اگر جوتی میں بھی دال رکھ کے دے تو کھا لینی چاہیے… یہاں تو اتنی آسائشوں میں بھی تیرے رونے نہیں ختم ہو رہے!” نانی جھنجھلا کر بولی۔
ماں گھٹنوں میں منہ چھپائے رو رہی تھی۔ اپنے زخمی وجود پر یا شاید اپنی قسمت پر…
“بس کر دے، مرد ذات تو غصے میں تیز ہوتی ہی ہے… یہ تو عورتوں کے کام ہوتے ہیں کہ انہیں قابو میں رکھیں!” نانی کے لیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ اپنی بیوقوف بیٹی کو کیسے سمجھائے، جو ہر کچھ دن بعد روتی دھوتی میکے آبیٹھتی۔
“وہ مارتا ہے مجھے، گالیاں دیتا ہے… الزام لگاتا ہے گندے گندے!” ماں کی سسکیاں تیز ہو گئیں۔
“تو کیا ہوا؟ چار وقت کا کھانا بھی تو دیتا ہے، بڑے گھر میں رہتی ہے، اچھی گاڑی میں گھومتی ہے، اچھا پہنتی ہے… گاؤں کی لڑکیاں رشک کرتی ہیں تجھ پر! کرموں جلی!” نانی نے تنگ آ کر کہا۔
ماں کی ہچکیاں ختم نہ ہوئیں، وہ روتی رہی، بس روتی رہی…
نانی کا صبر جواب دے گیا۔ “چل اٹھ! اپنے گھر واپس جا، تیرا بھائی آنے والا ہے، وہ مجھ سے پوچھے گا کہ یہ روز روز کیوں آ جاتی ہے؟ ہمیں سکون سے رہنے دے اور خود بھی اپنے گھر سکون سے رہ!”
“میں وہاں کیسے سکون سے رہوں؟ میں وہاں مر جاؤں گی، ماں!”
“تو مر جا! بس یہاں سے دفع ہو!”
یہ ہر کچھ دن کی کہانی تھی۔ ابا ماں کو مارتا، وہ روتے ہوئے میکے آتی، پھر نانی اسے زبردستی واپس بھیج دیتی۔ کچھ دن خاموشی رہتی، پھر ابا کے ہاتھ کھجلانے لگتے، اور سب کچھ ویسے ہی دہرانے لگتا۔
کبھی کبھی وہ سوچتی، ماں کتنی ڈھیٹ ہے، جو اتنی مار کھا کر بھی نہیں مرتی؟ ہر بار جب ابا دروازہ بند کر کے ماں کو مارتا، تو اس کی چیخیں سن کر اس کا دل دہل جاتا۔ وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی، مگر وہ چیخیں پھر بھی کسی نہ کسی راستے سے اس کے کانوں تک پہنچ ہی جاتیں۔
ہر بار اسے لگتا کہ اب کی بار ماں کی لاش ہی اس کمرے سے باہر آئے گی، مگر ماں جیسے مار کھا کر سخت جان ہو گئی تھی… مر کے ہی نہ دیتی۔
پھر ایک دن… واقعی میں، ماں مر گئی۔ شاید اس نے اپنا ڈھیٹ پن چھوڑ دیا تھا۔
نانی کی آنسو بھری آنکھوں کو دیکھ کر اس کا دل چاہا کہ وہ بوڑھی نانی کی چٹیا پکڑ کر گھر سے نکال دے۔ جب ماں زندہ تھی، تب کچھ کیوں نہ کیا؟
خاندان کے سبھی رعب و دبدبے والے مرد، اسے بزدل لگے۔ باہر تو شیر بنتے تھے، مگر ابا کے ظلم کے سامنے سب کی زبانیں گنگ تھیں۔
ماں کے جنازے کو دیکھ کر اسے کچھ محسوس نہ ہوا۔ سب نے کہا کہ وہ روئے، مگر اس کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکلا۔
“ماں جیسے لوگوں کو مر ہی جانا چاہیے۔ اگر آج نہ مرتی تو کل مر جاتی۔ جو کل ہونا تھا، وہ آج ہو گیا، تو رونے کی کیا بات؟”
لیکن اس دن اس نے خود سے ایک عہد کیا—
“میں کبھی ماں جیسی کمزور عورت نہیں بنوں گی!”
سالوں بعد…
شہر کی ایک مصروف شاہراہ پر وہ اپنی گاڑی تیزی سے دوڑا رہی تھی۔ چہرے پر ایک مطمئن مسکراہٹ تھی، کھلے بال ہوا میں لہرا رہے تھے، اور زیرِ لب وہ کچھ گنگنا رہی تھی۔
آج اس نے ایک بہت اہم کیس جیتا تھا— گھریلو تشدد کا کیس۔ ایک عورت کو ایک ظالم شخص کے چنگل سے آزاد کرایا تھا۔ اچانک، اسے ماں کی یاد آ گئی…
“کاش ہمارے گاؤں میں بھی اس وقت ایسی سہولت ہوتی…”
پھر وہ سوچنے لگی—
“اگر وہاں ایسا ہوتا، تو گاؤں کے آدھے مردوں کو سزا ہو چکی ہوتی!” وہاں گھریلو تشدد، شادی شدہ زندگی کا ایک عام حصہ تھا۔
فون کی گھنٹی بجی۔ اسکرین پر نام دیکھ کر اس کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
“ہیلو؟”
“ہیلو! کیا میں جیا میڈم سے بات کر رہا ہوں؟ جنہوں نے ایک ہائی پروفائل کیس جیتا ہے؟” دوسری طرف سے آواز آئی۔
“جی جی، آپ انہی جیا میڈم سے بات کر رہے ہیں!” اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔
“تو جیا میڈم، کیا آپ آج رات ہمارے جیسے لفنگے کے ساتھ ڈنر پر جانے کا وقت نکال سکتی ہیں؟”
“اوکے! آپ جیسے لفنگوں کے لیے جیا میڈم کے پاس وقت ہی وقت ہے!”
“اوکے پھر، رات میں ملتے ہیں!” دوسری طرف سے حنین نے کال کاٹ دی۔
حنین— صرف اس کا شوہر نہیں، اس کا بہترین دوست بھی تھا۔ جب کچھ عرصے کی دوستی کے بعد اس نے پروپوز کیا، تو وہ انکار نہ کر پائی۔
لیکن ایک خوف تھا…
“اگر حنین بھی ابا کی طرح نکلا، تو؟”
پھر وہ خود کو تسلی دیتی—
“نہیں! حنین ایسا نہیں کر سکتا، وہ ایک مہذب اور کھلے ذہن کا انسان ہے۔”
اور اس کا اندازہ بالکل ٹھیک نکلا۔
زندگی آرام سے گزر رہی تھی… کہ اچانک ماضی دوبارہ اس کے سامنے آ گیا۔
چٹاخ!
وہ آنکھیں پھاڑے حنین کو دیکھتی رہ گئی۔
اس کا پسندیدہ شخص… اس پر ہاتھ اٹھا چکا تھا۔
وجہ؟
وہ کسی شادی میں گئے تھے، جہاں ایک کولیگ نے اسے مبارک باد کے طور پر گلدستہ دیا تھا… بس!
گھر آتے ہی حنین کا اصل چہرہ سامنے آ گیا۔
“زناٹے دار تھپڑ!”
“گھٹیا الزامات!”
“بے رحمانہ مار پیٹ!”
مار کھاتے ہوئے اسے لگا، جیسے ماں کی روح اس کے سامنے کھڑی طنزیہ ہنس رہی ہو۔
“بڑے دعوے کرتی تھی کہ میرے جیسی نہیں بنے گی… دیکھ! آج تُو بالکل میرے جیسی بن گئی!”
جب حنین تھک کر چلا گیا، تو گھر قبر جیسی خ
اموشی میں ڈوب گیا۔
وہ رات بھر بیٹھی، اپنے زخمی وجود کو دیکھتی رہی… اور ماں کی روح اسے گھورتی رہی!