گدھا اور حکمت و دانائی

گدھا اور حکمت و دانائی
میری ملاقات ایک گدھے سے: حکمت، آزمائش اور محبت کی گفتگو!
ایک عام سا دن تھا، جب میں نے شہر کے شور و غُل سے فرار کا فیصلہ کیا۔
نہ سیاستدانوں کی چیخ و پکار سننی تھی،
نہ دکھاوے کی نصیحتیں،
نہ تجزیہ نگاروں کے لمبے لیکچر،
اور نہ اُن لوگوں کا فریب جو خود کو دانا ظاہر کرتے ہیں۔
میں کچھ سچ تلاش کر رہا تھا، چاہے ایک لمحے کے لیے ہی سہی۔
میں ایک پُرسکون کھیت میں جا پہنچا،
وہاں ایک گدھا درخت سے بندھا ہوا تھا۔
میں اُس کے قریب گیا،
نہ جانے کیوں، اُس کی آنکھوں میں کوئی ایسی خاموش دعوت تھی، جو مجھے کھینچ لائی۔
میں ایک قریبی پتھر پر بیٹھ گیا اور کہا:
“اے دوست، لوگ تم پر ہنستے ہیں، کہتے ہیں کہ تم بےوقوف ہو۔ کیا واقعی ایسا ہے؟”
وہ دیر تک میری طرف دیکھتا رہا،
پھر آہستگی سے سر ہلایا، جیسے مسکرا رہا ہو،
اور کہا:
“میں نے کبھی عقل مند ہونے کا دعویٰ نہیں کیا،
لیکن میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا،
نہ کسی سے دغا کی، نہ کسی کو نقصان پہنچایا۔
تو کیا بےوقوفی یہ ہے کہ میں جیسا ہوں ویسا ہی رہوں؟
یا یہ کہ دو چہرے رکھوں اور وہ دکھاؤں جو میں نہیں ہوں؟”
میں نے کہا:
“لیکن لوگ تمہیں بےکار سمجھتے ہیں،
بس ایک بوجھ اٹھانے کا ذریعہ!”
اس نے خاموشی میں گہری دانائی سے جواب دیا:
“میں کم بولتا ہوں، مگر بہت کچھ اٹھاتا ہوں،
اور وہ بہت بولتے ہیں، لیکن کچھ نہیں اٹھاتے۔”
میں نے پوچھا:
“کیا تم تھکتے نہیں؟
اس خاموشی سے؟
اس آزمائش سے؟”
اس نے سر ہلایا اور کہا:
“تھکن زندگی کا حصہ ہے،
لیکن وہ مجھے نہیں توڑتی،
آزمائش اُسے نہیں مارتی جو اُسے قبول کر لیتا ہے،
بلکہ اُسے مارتے ہیں جو جھوٹ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔
مجھے آزمائش ملی خاموشی کی، بوجھ اٹھانے کی،
لیکن نہ دغا کی، نہ لالچ کی،
یہی میری تسلی ہے۔”
میں نے پوچھا:
“تو زندگی کے بارے میں کیا رائے ہے؟”
کہنے لگا:
“زندگی آسان نہیں،
مگر اس کی سختی انسان کو درندہ بننے کا جواز نہیں دیتی۔
میں گدھا ہوں،
نہ کبھی کسی کو پھاڑا،
نہ دھوکہ دیا،
نہ کسی منصب کی دوڑ میں شامل ہوا،
نہ کسی سے نفرت رکھی۔”
میں اُس کی باتوں میں گم ہو گیا،
اور مجھے کئی چہرے یاد آئے:
ایک مذہبی شخص، جو عاجزی کی بات کرتا ہے،
مگر تنقید برداشت نہیں کر سکتا۔
ایک سیاستدان، جو عوام کے نام پر چیختا ہے،
مگر اُنہی کی دولت لوٹتا ہے۔
ایک نوجوان، جو گدھے کا مذاق اُڑاتا ہے،
مگر خود نہیں جانتا کہ وہ کون ہے،
اور جا کہاں رہا ہے۔
میں نے پوچھا:
“کیا تم نے کبھی محبت کی ہے؟”
وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا:
“بہت محبت کی،
اس زمین سے جس پر میں چلتا ہوں،
اُن لوگوں سے جو میرے ساتھ سختی کے بعد بھی مجھے معاف کر دیتے ہیں،
اُن سادہ دلوں سے جو مجھے پانی دیتے ہیں،
بغیر یہ پوچھے کہ میرا نسب کیا ہے۔
محبت، وہ نہیں جو تمہارے گانوں میں ہے،
محبت یہ ہے کہ تم وفادار رہو،
چاہے تمہیں بھلا دیا جائے،
نرم لہجے میں بات کرو،
چاہے لوگ تمہیں غلط سمجھیں۔”
میں نے کہا:
“کیا تم کبھی کچھ اور بننے کی خواہش رکھتے ہو؟”
کہا:
“اگر مجھے اختیار دیا جائے،
تو میں یہی رہنا پسند کروں گا۔
مجھے انسانوں کی وہ نظریں پسند نہیں جو صرف ظاہر دیکھتی ہیں،
اور حقیقت کو بھول جاتی ہیں۔
نہ اُن کی وہ لڑائیاں پسند ہیں،
جو ایک لفظ سے شروع ہو کر خون بہانے تک پہنچتی ہیں۔
میں گدھا ہوں،
نہ چہرہ بدلتا ہوں، نہ زبان، نہ موقف۔
اور جو مجھے جانتا ہے،
وہ مجھے پوری طرح جانتا ہے۔”
میں خاموش ہو گیا،
میرے پاس کہنے کو کچھ نہ رہا۔
پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولا:
“یاد رکھو،
مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ میں گدھا کیوں پیدا ہوا،
بلکہ خود سے یہ سوال کرو:
تم انسان کیوں نہیں رہے؟”
میں اُٹھا اور جانے لگا،
تو اُس نے کہا:
“تم سچ تلاش کر رہے ہو،
اور بعض اوقات،
یہ سچ تمہیں وہاں ملتا ہے جہاں تم نے کبھی گمان بھی نہ کیا ہو۔
کسی پتھر میں،
کسی فقیر میں،
یا، کسی گدھے میں۔”
میں اُس کی طرف دیر تک دیکھتا رہا،
پھر ادب سے جھکا، اور چل پڑا۔
اور میرے اندر ایک احساس جاگ اٹھا،
کہ میں گدھے سے نہیں ملا،
بلکہ ایک زندہ ضمیر سے ملاقات ہوئی،
جس نے مجھے وہ سکھایا جو شاید پوری زندگی نہ سکھا سکی۔