دوستو کیا آپ بھی زہن میں آنے والے بلا وجہ کے خیالوں کی وجہ سے پریشان ہیں کیا آپ بھی کسی کام پہ فوکس نہیں کر پا رہے یا آپ کو نیگیٹو خیالات نے پریشان کر رکھا ہے تو آج کی یہ تحریر آپ ہی کیلیے ہے کہیں بھی اسکپ نہ کیجئے گا پوری تحریر پڑھئیے گا کیونکہ ہم آپ کو بتانے والے ہیں وہ باتیں جن پر عمل. کر کے آپ ہمیشہ کیلیے نیگٹو خیالات سے جان چھڑوا سکتے ہیں….
دوستو ذہن میں نیگٹیو خیالات کا پیدا ہونا زندگی میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ جیسے روزانہ کی چھوٹی چھوٹی پریشانیاں کہ فلاں پڑھائی میں مجھ سے زیادہ اچھا کیسے ہے یا میں دوسروں سے پیچھے کیوں ہوں یا میری پرفارمنس بہتر نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔اکثر نوجوانوں کے ذہن میں اس قسم کی سوچوں کا ڈھیر لگنا شروع ہوجاتا ہے اور ذہن کچھ بہتر کام کرنے کے بجائے ان ہی میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ان منفی یا بلاوجہ کی سوچوں کی وجہ سےآپ کے بہت سے اہم کام رہ جاتے ہیں اور آپ کی انرجی بھی کم ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی سوچیں آپ کو ذہنی طور پر تھکا دیتی ہیں۔! ریسرچرذکا خیال ہے کہ دن بھر کے دوران انسان کے ذہن میں تقریباً 60ہزار سوچیں آتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ ترسوچیں ایسی ہوتی ہیں، جو بار بار دماغ پر ہیوی ہو جاتی ہیں۔
دوستو لیکن کوئی بات نہیں ، فارچونیٹلی کچھ دانا لوگوں نے جو آپ کے ذہن کی ڈی کلٹرنگ یعنی سوچوں کو ترتیب دینے میں مدد دے سکتے ہیں اور دماغ میں اتنی جگہ بنانے میں بھی مدد کرسکتے ہیںجہاں صرف اہم اور پازیٹو سوچوں کا گھر ہو۔ میری کونڈو کی ڈی کلٹرنگ کی تکنیک کو شکاگو کی ڈاکٹر آف سائیکالوجی اور کلینکل فزیولوجسٹ سنیتھا چنڈی نے اپنایا اور بتایا کہ آپ کیسے اپنی سوچوں کو ترتیب دے سکتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے ان خیالات کا پتہ چلائیں جو پریشان کن ہوں جیسے کہ
ماضی کا کوئی واقعہ
ہو سکتا ہے آپ کے خاندان میں کسی نے آپ کے کام پر تنقید کی ہو یا کسی دوست نےآپ کے بارے میں غلط کمنٹس دیے ہوں۔ ایسی باتیں جن سے آپ کا دل دکھا ہووہ چاہے دو ہفتے پہلےکی بھی ہوں لیکن آپ کو پریشان کرتی رہتی ہیں۔ جب تک آپ اپنی ایسی سوچ کو اٹھا کر باہر نہیں پھینکیں گے تو دوسری سوچیں آپ کے مائینڈ میں جگہ نہیں بنا سکتی۔جب آپ اس واقعے کو ری پلے کرکے اس کے بارے میں سوچتے رہیں گے تب تب آپ کے اند ر کھچاؤپیدا ہوتا رہے گا۔ یہ سوچ دور کرنے کے لیے آپ اسے کسی کے ساتھ شیئر کریں اور پھر ہلکے پھلکے ہو کر آگے بڑھیں۔
ہمیشہ برے حالات کی توقع رکھنا
دوستو آپ کا ذاتی اصول ہونا چاہیے، ’’اگر کچھ غلط ہوا تو دیکھا جائے گا‘‘۔ اس قسم کی زبردست سوچ آپ کو چیزوں کو قبول کرنے کے قابل بناتی ہے جیسے کہ آپ کا کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ہوا یا کمپنی میں ڈائون سائزنگ ہو رہی ہے.۔آپ یہ سوچیں کہ جو ہوچکا سو ہو چکا، اب اسی کے ساتھ جینا ہے ،دوستو آپ اپنے اندر کے خوف کو ختم کر سکتے ہیں، جیسے آپ کسی بھی برے حالات کے بارے میں سوچیں اور اس کا ایک ایکشن پلان بنائیں، اس طریقے سے آپ کا خوف کم ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ نہ ہوا تواس کے بہترین متبادل کیا ہوں گے، یا پھر آپ کے چہرے پر کیل مہاسے نکل رہے ہیں تو آپ کو پریشان ہونے کے بجائے سکن اسپیشلسٹ سے ملنا ہوگا…
چیک لسٹ کبھی ختم نہیں ہوتی
دوستو اکثر یہی ہوتا ہے کہ دن ختم ہو جاتاہے لیکن کام ختم نہیں ہوتے۔ اسائنمنٹ کرنا، ای میل کرنا، کھیلنا ، پڑھائی کرنا وغیر ہ میں آپ کا دماغ مسلسل لگا رہتا ہے، بالخصوص نامکمل کاموں کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں ٹائم مینجمنٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ ان کاموں کو بھول جائیں جن کو آپ کا دماغ بار بار یاد دلاتا رہتا ہے اور صرف انہی کاموں پر دھیان دیں جو اس وقت آپ کا ہاتھ میں ہوں۔اس کا بھی حل ہے کہ کاموں کو ذہن میں رکھنے کے بجائے کسی کاغذ پر لکھ لیں اوران کو ختم کرنے کے بعد نوٹ کرلیں۔ ان کاموں میں بھی فرق کرنا ضروری ہے، جو لازمی ہیں یا جو کچھ وقت بعد بھی کئےجاسکتے ہیں۔ آپ ایک ہی وقت میں سب کچھ نہیں کرسکتے۔ اس لیے صرف ان چیزوں کو سیلیکٹ کریں جو آپ کی زندگی میں بہت ایمیت رکھتی ہوں۔اس کے علاوہ، سب کام ایک وقت میں کرنے کے بجائے ایک وقت میں ایک کام کرنے کا سوچیں۔ ایک وقت میں ایک کام کرنے سے انسانی ذہن کی صلاحیتیں برقرار رہتی ہیں اور وہ دماغی طور پر بلا وجہ تھکتا نہیں ہے۔ ذہن کو زیادہ کاموں میں الجھانے سے سوچ بچار اور توجہ کرنے کی طاقت متاثر ہوتی ہے۔
تحریر: عمرمختار