دوستو کیا آپ کو پتا ہے اللہ کی گستاخی کرنے پر انسانوں کو مختلف زبانیں دے دی گئیں؟۔۔۔۔۔اور کیا آپ کے علم میں ہے کہ آج دنیا میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں؟…..اور ان زبانوں کی ابتدائی زبان کونسی تھی؟۔۔۔۔۔آج کی اس تحریر میں ہم آپ کو بتائیں گے یہ سب کچھ تو کہیں پہ بھی سکپ نہ کیجئیے گا۔۔۔۔
دوستو کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اْن کی قوم ایک ہی زبان بولتی تھی لیکن کچھ عرصے بعد انسان نے ایک مینار بنا کر آسمان تک پہنچنے کی کوشش کی جسے مینارِ بابل کہا جاتا ہے۔ یہ سمیری تہذیب کی پرانی ترین یادگاروں میں سے سب سے اونچی عمارت تھی۔ اس عمارت کو شینار (موجودہ عراق) کے میدانی علاقہ میں تعمیر کیا گیا تھا اور پتھر کی بجائے پکی اینٹیں لگائی گئی تھیں۔ یہ سات منزلہ عمارت تین سو یا تین ہزار فٹ اونچی تھی۔ اس مینار کی بنیادیں سب سے پہلے ایک یورپین نے 1914ء میں دریافت کیں لیکن مدت تعمیر کا اندازہ پھر بھی نہ ہوسکا۔
دوستو تاریخ بتاتی ہے کہ یہ برج یا مینار حضرت نوح علیہ السلام کے دور کے بعد بنایا گیا اس زمانے کا بادشاہ اس کے ذریعے آسمان تک پہنچنا چاہتا تھا۔ خدا نے اس گستاخی کی سزا یہ دی کہ مینار کی مختلف منزلوں پر رہنے والوں کی زبانیں مختلف کر دیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ سکیں۔ دوستو اسی طرح کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہےچونکہ برج یا مینار کی منزلیں سات تھیں اور دنیا کے براعظم بھی سات ہیں، یوں ہر منزل پر رہنے والوں کی زبانیں مختلف کرکے انہیں ایک طوفان کے ذریعے دُنیا کے سات مختلف براعظموں میں اٹھا کر پھینک دیا گیا۔ لیکن دوستو کچھ تاریخ دانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بولنے کے انداز اور آواز کا فرق وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہوااور کچھ کا کہنا ہے کہ ان ساری زبانوں کا تعلق ایک زبان سے ہی ہے۔۔۔
قرآن کے مطابق ابتداء میں تمام انسان ایک اُمت اور ایک زبان تھے، پھر وہ مختلف ہو گئے یعنی اللہ نے ایک امت میں سے مختلف اُمتیں بنا کر انہیں جُدا جُدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے انسان کی نسل کو آگے بڑھایا مگر تمام انسانوں کی شکلیں آدم جیسی نہیں بنائیں۔ قد و قامت، رنگ، آواز، عقل وغیرہ سب میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بارے میں قرآن کریم کی سورة الروم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کیلئے نشانیاں ہیں۔”
دوستو یہ تو ہر عقل رکھنے والا انسان سمجھ سکتا ہے مثال کے طور پر اگر سب انسانوں کی شکلیں ایک جیسی ہوتیں تو پھر خوبصورتی کس چیز کا نام ہوتا یہی وجہ ہے کہ اللہ کریم نے مختلف زبانیں ،بولنے کے انداز ان میں فرق رکھ کر اللہ نے ہر قوم ،مذہب اور گروہ کی ایک الگ پہچان بنا دی۔
دوستو زبان اللہ کی ایک بہت بہترین نعمت ہے۔۔۔اور اسی ایک نعمت کی وجہ سے انسان دوسری مخلوقات سے اعلا اور مختلف ہوتا ہے۔۔۔
دوستو لیکن چارلس ڈارون جس نے انسان کی اسٹیپ بائی اسٹیپ جسمانی طور پر ترقی کرنے کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے انسان بندر تھا لیکن حالات و واقعات کی تبدیلی نے اسے آج کے انسان کی شکل دے دی اور پھر مختلف علاقوں میں رہنے والے انسانوں نے مختلف زبانیں بولنا شروع کر دیں لیکن اس نظریہ کے پیش کرنے والے نے ابھی تک اس بات کا جواب نہیں دیا کہ دنیا میں زندگی کب اور کیسے شروع ہوئی۔۔۔۔
لیکن دوستو ڈارون کے اس نظرئیے اور بابل کے مینار بنانے اور اللہ کی ان لوگوں کو گستاخی کی سزا دے کر مختلف براعظموں میں پھینک کر مختلف زبانوں دے دیں ۔۔۔۔ان دونوں نظریات کی قرآن پاک نفی کرتا ہے۔۔۔۔سورہ رحمن میں اللہ کریم یہ بات واضح کر دیتا ہےکہ انسان کو تخلیق کر کے اسے زبان کا علم سکھایا۔۔۔۔اس کے علاوہ قرآن پاک ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے تمام چیزوں کے نام سکھائے ظاہر ہے سکھانے میں بولنا بھی شامل ہو گا ۔۔۔۔دوستو اس وقت دنیا میں مختلف علاقوں اور خطوں میں رہنے والے لوگ 6500 کے قریب مختلف زبانیں بولتے ہیں اور سب زبانوں کی گرائمر اور بولنے کے انداز اور لہجے مختلف ہیں
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ زبانیں ایک ہی زبان سے نکلی ہیں؟تو حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک روایت کے مطابق جب حضرت آدم علیہ السلام جنت میں تھے ان کی زبان عربی تھی پھر جب ممنوعہ درخت کا پھل کھایا اور ان کو زمین پر بھیج دیا گیا تو وہ سریانی زبان بولنے لگے لیکن توبہ کے بعد پھر ان کی زبان عربی ہو گئی تو پتا یہ چلا کہ انسان کے پیدا ہونے کے بعد ہی انسان نے مختلف زبانیں بولنا شروع کر دیں تھیں۔۔۔
جبکہ زبان پر ریسرچ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم عبرانی ،سریانی ،عربی یہ دوسری پرانی زبانوں میں سے کسی ایک کو تمام زبانوں کی ابتدائی زبان مان لیا جائے تو یہ بھی غلط ہو گا کیونکہ یہ تمام زبانیں 6000 سال پرانی ہیں جب کہ انسانوں کے جینز سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق زبانوں کا معاملہ لاکھوں سال پرانا ہے سو اس بات کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کونسی زبان انسان کی پہلی زبان تھی بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے یہ انسانوں نے بولنا لاکھوں سال پہلے شروع کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر:عمرمختار