دوستو کیا آپ نے بھی آب حیات کے بارے میں سن رکھا ہے کہ جو بھی اس کو پئے گا اس کو ہمیشہ کی زندگی مل۔جائے گی۔۔۔کیا آپ کو پتا ہے کہ یہ پانی کن لوگوں نے پیا اور کیا وہ ابھی تک زندہ ہیں۔۔۔۔کیا اسلام میں کہیں اس کا تذکرہ موجود ہے یا یہ صرف دوسرے مذاہب کے لوگوں کی پھیلائی ہوئی بات ہے ۔۔۔۔۔آج کی اس تحریر میں ہم ان تمام سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔۔۔
دوستو دنیا کی ابتداء ہی سے انسان قوت، دولت، شہرت اور اقتدارکا خواہشمند رہا ہے ۔ تاریخ میں ایسے بہت سے افراد موجود ہیں جنہوں نے پوری نہیں تو آدھی دنیا پرحکومت ضرور کی ہے جن میں سکندر اعظم اور چنگیز خان کا نام سر فہرست ہے لیکن فاتح اعظم اور اس جیسی فکر رکھنے والے دیگر افراد ایک دن اپنا تخت وتاج چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے، لہٰذا انسان نے سوچنا شروع کیا کہ موت سے کس طرح چھٹکارا حاصل کیا جائے۔چنانچہ جہاں مختلف مذاہب و فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے علم ، اور عقیدے سے اس خواہش کا کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ وہاں آب حیات کا حصول بھی اولین ترجیح رہا۔ سوال یہ ہے کہ آب حیات محض ایک خیال یا فسانہ ہے یا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے۔
دوستو آب حیات دراصل فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آب بقاء، آب دوام یا امرت ہے ۔ آب حیات کی یہ خاصیت بیان کی جاتی ہے کہ جو اسے پئے گا یا اس میں غسل کرے گا اسے ہمیشہ کیلیے زندگی حاصل ہو جائے گا ۔آب حیات کا تصور بہت پرانا ہے، یہاں تک کہ قرآن کریم سے پہلی الہامی کتابوں میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔۔۔اس کے علاوہ اسلام سے پہلے بھی فارسی ادب کی مختلف داستانوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔
دوستو بات یہیں تک نہیں رکی اسلام کی آمد کے بعد بھی بہت جگہ پہ آب حیات کا ذکر موجود ہے۔ مختلف کتابوں اور داستانوں میں تین اشخاص کا ذکر کیا گیا ہے جو آب حیات یا نہرحیات تک پہنچے ان میں حضرت خضرؑ، حضرت الیاسؑ اور حضرت ذوالقرنینؑ شامل ہیں۔ دوستو ان کتابوں اور داستانوں کے بیان کے مطابق آب حیات حضرت خضرؑ اور حضرت الیاسؑ کو نصیب ہوا اور یوں وہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔دوستو یہ ایک ایسا مسٔلہ ہے جس کے بارے میں یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ آیا آب حیات کا کوئی وجود تھا، ہے یا نہیں اور حضرت خضرؑ سے اس کا کیا تعلق ہے۔ اس سلسلے میں محقیقین کے مختلف اقوال ہیں، کچھ کے مطابق یہ روایت صحیح ہے کہ حضرت خضرؑ نےچشمہ حیوان یا نہر حیات سے پانی پیا اور وہ حیات ہیں جبکہ کچھ اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ مشہور محقق ابن حجرعسقلانی نے اس پر تحقیق کر کے ایک کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ’حیات حضرت خضرؑ‘ کے نام سے شائع ہؤا ہے۔جس میں وہ اس واقعہ کو نہیں مانتے کہ حضرت خضرؑ حیات ہیں۔ ابن اسحاق کے بیان کے مطابق حضرت خضرؑ کو حضرت آدمؑ نے اپنی وفات اور طوفان نوح کی خبر دی تھی اور وہ کشتی نوح میں سوار تھے۔ اسی طرح دوسرے محققین نے فرمایا کہ حضرت خضر اور الیاس بہت سے عُلَماء کے نزدیک زندہ ہیں اور ہر سال زمانہ حج میں ملتے ہیں، اور یہ کہ حضرت خضر نے چشمہ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا۔
دوستو اس بحث کو مکمل کرنے کیلیے ہم قرآن کریم کی سورۃ کہف سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سورۃ کہف کی آیات 61 تا 66 میں ارشاد ہؤا ہے ’موسٰیؑ کو حکم ہؤا کہ ہمارا ایک بندہ ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے۔ موسٰیؑ نے عرض کی ’’پروردگار میں اس تک کیسے پہنچوں‘‘ حکم ہؤا جہاں دو دریا ملتے ہیں وہاں۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی ملا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی نمک آلودہ لے لیں، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں ہمارا وہ بندہ ملے گا‘۔ چنانچہ جب موسٰیؑ مجمع البحرین وہ جگہ جہاں بحیرۃ روم و فارس آپس میں ملتے ہیں میں ’’نہر حیات‘‘ کے نزدیک پہنچے تو وہیں ایک چٹان کے قریب کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گئے، مچھلی آپکے ساتھی یوشع بن نون کی زنبیل میں تھی، پانی کے قطرے جیسے ہی اس پر پڑے وہ بحکم خدا زندہ ہو کرایک سوراخ کے ذریعے پانی میں اترتی چلی گئی۔ جب حضرت موسٰیؑ یہاں سے روانہ ہو کر کچھ دور گئے تو یوشع سے کہا ’مجھے بھوک لگی ہے، وہ مچھلی لے آؤ ’’یوشع نے کہا‘‘ وہ مچھلی تو جہاں ہم نے آرام کیا تھا وہیں عجب انداز سے چھلانگ لگا کر پانی میں غائب ہو گئی، اورآپ کو بتانا مجھے شیطان نے بُھلا دیا’’موسٰیؑ نے کہا ‘‘ پس واپس چلو اسی جگہ کی ہمیں تلاش تھی‘۔ جب آپ واپس لوٹے تو دیکھا کہ ایک بندہ خدا وہاں بیٹھا ہؤا ہے، آپؑ نے سلام کے بعد کہا کہ میں موسٰی ہوں بنی اسرائیل کا نبی۔دوستو یہی خدا کا نیک بندہ حضرت خضرؑ تھے۔اس کے بعد کی تفصیل عام ہے کہ آپؑ نے حضرت خضرؑ کے ساتھ سفر کیا اور انہوں نے کہا کہ موسٰی جو عمل میں کروں آپ سوال نہیں کریں گے۔ ہم تفصیل میں نہیں جائیں گے کیونکہ آپ کو بس یہیں تک لانا مقصود تھا۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ نہر حیات کے پانی میں خدا نے یہ تاثیر رکھی تھی کہ مردہ مچھلی پر اس پانی کے چھینٹے پڑنے سے وہ بحکم خدا زندہ ہو کر پانی میں غائب ہو گئی جبکہ حضرت خضرؑ تو وہیں رہ رہے تھے تو کیا آپ نے اس پانی سے فائدہ حاصل نہیں کیا ہو گا۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں، بیشک جو وہ چاہتا ہےوہی ہوتا ہے۔
دوستوآب حیات اور حضرت خضرؑ کا واقعہ حضرت ذوالقرنینؑ سے بھی وابستہ ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنینؑ کے خالہ زاد بھائی اور وزیررہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ مختلف تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ حضرت ذوالقرنینؑ نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوحؑ کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہ حیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنینؑ نے اس کی تلاش میں مغرب کا سفر کیا، حضرت ذوالقرنینؑ کے علم میں یہ بات آئی کہ چشمہ حیوان اندھیرے راستوں میں موجود ہے، جسے آج سائنس ’ بلیک ہول‘ کہتی ہے اور وہاں تین سو ساٹھ چشمے ہیں لہٰذا ذوالقرنینؑ نے اپنے لشکر سے تین سو ساٹھ افراد منتخب کئے اور ہر ایک کو ایک، ایک مچھلی دے کر خضرؑ کی سربراہی میں روانہ کیا ، تمام لوگوں کو یہ ہدایات دی گئیں کہ ہر فرد اپنی مچھلی کے ساتھ چشمے میں اتر جائے اور واپس آکر اپنی،اپنی مچھلی ظاہر کرے ۔ کافی دشواری و محنت کے بعد آخر کار یہ افراد ان چشموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جب واپس آئے تو حضرت ذوالقرنینؑ نے کہا کہ سب اپنی مچھلی جمع کرادیں، چنانچہ سب نے اپنی مچھلی ان کے سامنے پیش کردی سوائے حضرت خضرؑ کے۔ ذوالقرنینؑ نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا ’میں جب چشمے میں اترا تو مچھلی میرے ہاتھ سے نکل کر پانی میں چلی گئی، میں نے غوطہ لگا کر اسے پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا‘۔ حضرت ذوالقرنینؑ نے کہا کہ وہ پانی آپ کے مقدر میں تھا۔
اسی طرح قرآن پاک کی ایک تفسیر کے مطابق حضرت ذوالقرنینؑ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام لا کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔ اسی طرح ایک روایت ملتی ہے کہ ذوالقرنینؑ حضرت ابراہیؑم کے دور میں تھے اور انہوں نے ابراہیؑم کے ہمراہ خانہ کعبہ کا طواف بھی کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خضرؑ بھی ابراہیؑم کے دور کے ہیں جبکہ ایک محتاط اندازے کے تحت حضرت ابراہیؑم اور حضرت موسٰیؑ کے درمیان 600 سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ ان تمام روایتوں سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ حضرت خضرؑکو یا تو اللہ کی طرف سے لمبی عمر دی گئی تھی یا پھر وہ خدا کے حکم سے ابھی تک زندہ ہیں یا انہوں نے آب حیات پر کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کر رکھی ہے۔۔۔اسی طرح ایک امام نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ بہت سے پرانے علماء اور محققین کی رائے یہ ہے کہ وہ نبی تھے اور زندہ ہیں اور سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا انہیں کے یعنی خضرؑ سپرد ہے۔۔۔اسی طرح ایک اور تفسیر میں ہے کہ اکثر عُلَماء مشائخ کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضرؑ زندہ ہیں۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ یہ بھی اسی میں منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمہ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔
تحریر : عمرمختار