سال 2024 انتخابات کے حوالے سے انتہائی اہم بات کی جا رہی ہے جس کے عالمی منظرنامے پر بھی بہت اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آئندہ سال دنیا کے آدھے ممالک میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں جبکہ تقریباً 30 ممالک کی عوام نئے صدر کو منتخب کریں گے۔
لیکن سیاسی اور بین الاقوامی امور کے اعتبار سے اہم چار ممالک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سب سے زیادہ توجہ کے حامل ہیں۔
اس حوالے سے باتیں کی جا رہی ہیں اور تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ کیا کسی قدامت پسند امیدوار کو اعلٰی منصب کے لیے منتخب کیا جائے گا یا پھر آزاد خیال سیاستدانوں کو موقع ملے گا۔
کیا امریکی عوام ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ منتخب کریں گے؟ کیا روس میں ولادیمیر پوتن کے طویل اقتدار کو کوئی چیلنج بھی کر پائے گا؟
نومبر 2024 کو لاکھوں کی تعداد میں امریکی شہری اپنے 60ویں صدر کو منتخب کریں گے۔ اب تک ہونے والی پولنگ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ووٹرز کی اکثریت کے خیال میں 77 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں 81 سالہ جو بائیڈن ملک چلانے کے لیے بہت عمر رسیدہ دکھائی دیتے ہیں۔
ان انتخابات کے حوالے سے یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ غلط معلومات کی تشہیر کا نمایاں عمل دخل پایا جائے گا۔
گزشتہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ہارنے پر ان کے حامیوں نے کانگریس پر دھاوا بول دیا تھا اور نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
اب ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلیکن پارٹی کی جانب سے صدارتی انتخابات لڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
اسی طرح سے اثر و رسوخ رکھنے والے ملک رشیا میں صدر ولادیمیر پوتن گزشتہ 23 سال سے طاقتور عہدوں پر رہے ہیں۔
سال 2020 میں انہوں نے آئین میں ترامیم کروائی تھیں تاکہ وہ سال 2036 تک اقتدار میں رہ سکیں۔ اگر ایسا ہوا تو وہ جوزف سٹالن سے بھی زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہنے والے لیڈر بن جائیں گے۔
ولادیمیر پوتن اپنے ناقدین اور مخالفین کو خاموش کروانے کے لیے جانے جاتے ہیں اور ان میں سے اکثر قید کی صعوبتیں بھی کاٹ رہے ہیں۔
یوکرین میں جاری جنگ اور روس کے اندرونی سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاید ہی کوئی اور سیاستدان ولادیمیر پوتن کو چیلنج کر کے آئندہ چھ سال کے لیے منتخب ہو سکے۔
تقریباً ایک ارب انڈین اپریل مئی میں اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے نئے وزیراعظم کو منتخب کریں گے۔
دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے نریندر مودی ایک مرتبہ پھر انتخابات لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ناقدین کے خیال میں مسلمان اقلیتوں کی طرف جارحانہ رویہ ان کی جیت میں اہم کردار ادا کرے گا۔
مودی کے دور حکومت میں شہری آزادیوں پر قدغن لگائی گئیں اور میڈیا پر بھی پابندیاں عائد ہوئیں لیکن اس کے باوجود عالمی سطح پر انڈیا کا مرتبہ بڑھانے کا سہرا ان کے سر ہی بندھتا ہے۔
نریندر مودی کے دور میں انڈیا، امریکہ اور چین کے بعد چاند پر جانے والا چوتھا ملک بھی بن گیا ہے۔
دنیا کے سب سے بڑے کثیرالاقوامی انتخابات جون میں ہونے جا رہے ہیں جس میں 27 یورپی یونین کے ممالک میں سے 40 کروڑ سے زائد ووٹرز 720 ارکان پارلیمینٹ کا انتخاب کریں گے۔
ان انتخابات سے یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ عوام دائیں بازو کی پاپولسٹ جماعتوں کے کس قدر حامی ہیں۔
ہالینڈ اور اٹلی میں ہونے والے گزشتہ انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں کی کامیابی کے بعد یورپی یونین کے انتخابات میں قوم پرست رہنماؤں کی جیت کے زیادہ امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔