اشرافیہ نے غلطیاں کیں جن کو تسلیم کرنا چاہیے،ملکی مسائل پر ہم سب کو مل کر کام کرنا ہو گا،وزیر دفاع کا قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال
اسلام آباد (فوکس نیوز ۔ 19 اکتوبر 2022ء) وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہاؤس نے قانونی اور آئینی طریقے سے ایک حکومت کو ہٹایا،جن کی حکومت ہٹائی گئی وہ شخص ریاست کو یرغمال بنانا چاہتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہمارا معاشرہ جمہوری نہیں،ملک کی اشرافیہ نے غلطیاں کیں جن کو تسلیم کرنا چاہیے۔
سب کے ذمہ کوئی نہ کوئی گناہ ہے اور اسے ماننا چاہیے،جو کہہ رہا ہوں وہ سنجیدہ ہے ہاؤس کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ہم نے فاش غلطیاں کیں جس کا حل ڈھونڈا جاسکتا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ سوات میں لگی آگ مجھ سمیت سب کے دامن تک پہنچ سکتی ہے،مسئلہ 50 کی دہائی سے شروع ہے بوجھ کو کب کو تک اپنے کندھوں سے اتاریں گے،مسائل کے حل کے لیے ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے جبکہ مسائل کا مستقل حل نکالنا چاہیے،ہم اسے مانیں یا نہ مانیں۔
ہمارے پاس طاقت پوری ہے یا نہیں مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں50 کے دہائی سے ایک سلسلہ شروع ہوا اور پھر سمجھوتے ہوئے،میں نے بلوچستان کی حکومت پر نکتہ چینی کی جسارت بھی کی تھی،ہم بلوچستان گئے تو کہا گیا آپ کو نکتہ چینی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ وزیر دفاع نے کہا کہ زخم بہہ رہا ہے اس پر مرحم رکھنے کی ضرورت ہے،پاکستان کے قیام کے ایک ڈیڑھ سال بعد مختلف رائے کو تسلیم نہیں کیا گیا،ایسی ہی صورتحال بلوچستان میں کئی دہائیوں سے ہے اس کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔
خواجہ آصف نے سیلابی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سوا تین کروڑ پاکستانی کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں،انہیں نہیں پتہ یہ زندگی کہاں لے جائے گی،ان کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ہم ایک قوم ہیں،عوام کی خواہشات اور دکھ اگر شئیر نہیں کر سکتے تو حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں،معاملات کوسیاسی طریقے سے حل نہ کیا جائے تو مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں،کچھ ایشوز ایسے ہیں جن کا حل بہت ضروری ہے۔
خواجہ آصف نے تقریر کے دوران بات چیت کرنے پر شیری رحمان سے خاموش رہنے کی درخواست کی اور مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے بات کرنے دیں گی؟ شیری رحمان نے برجستہ جواب دیا کہ کوشش کرتی ہوں۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ یہی تو آپ لوگوں کا رویہ ہے جس کی وجہ سے یہ مسائل ہیں،اگر آپ کوئی بات کریں گی تو میں اپنے انداز میں جواب دینے پر مجبور ہوں گا۔