FocusNews Pakistan Largest News Network فوکس نیوز

لاہور کی تباہی‘دنیا کے دس آلودہ ترین شہروں میں شمار شہرکی بربادی کیسے ہوئی؟زیرزمین واٹر ٹیبل تیزی سے نیچے جانے سے لاہور ویران ہونے کا خدشہ

ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہمارے گلیشئرزتیزی سے پگھل رہے ہیں اور پہاڑوں پر برفباری کے ”پیٹرن“میں بھی نمایاں تبدیلیاں نوٹ کی گئی ہیں کچھ سالوں سے اگر ملک کے کچھ حصوں میں شدید بارشیں تباہی مچاتی ہیں تو کچھ حصے شدید ترین خشک سالی کا شکار رہتے ہیں ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے پاکستان کو خوراک کے معاملے میں بھی چیلنجزکا سامنا ہے‘ٹھوس اقدامات کے بغیرتباہی سے بچنا ممکن نہیں.ایڈیٹر ”اردو پوائنٹ“اور وزارت ماحولیات اور یواین ڈی پی کی ”ماحولیاتی آلودگی کے اسباب اور اتدارک“ کے عنوان سے شائع کردہ رپورٹ کے شریک مصنف میاں محمد ندیم کا خصوصی تجزیہ

لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 اکتوبر ۔2022 ) لاہور میں فضائی آلودگی برقرار، لاہور پھر دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو گیا لاہور آج دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں دوسرے نمبر پرہے، جہاں مجموعی طور پر ائیر کوالٹی انڈیکس 239 ریکارڈ کیا گیا ہے جوکہ معمولی فرق کے ساتھ گزشتہ روز238تھا.

جمعرات کے روزشہر میں سب سے زیادہ 275 اے کیو آئی جوہر ٹاﺅن کے علاقے میں ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے حیران کن طور پر مال روڈ‘پنجاب اسمبلی کے گرد ونواح کے علاقے تقریبا پچھلے ایک سال سے آلودہ ترین علاقوں میں شمار ہوتے رہے ہیں پنجاب کا صوبائی دارالحکومت بھارتی سرحد کے قریب ہونے ‘شہر میں ٹریفک کے بڑھتے دباﺅ‘شہر کا غیرمعمولی پھیلاﺅ و تعمیرات میں بغیرکسی منصوبہ بندی کے اضافہ اور درختوں کی بے رحمانہ کٹائی کی وجہ سے ایئرکوالٹی انڈکس میں پچھلے کئی سالوں سے سرخ لکیرپر کھڑا ہے.

ماہرین کے مطابق شہر میں اورنج لائن اور میٹرو بس جیسے غیرضروری منصوبوں کی تعمیر سے گنتی کے چند لوگ ”فیض یاب“ہوئے مگر اس کی قیمت شہری اپنی جانیں دے کر چکا رہے ہیں صوبائی حکومت اورمتعلقہ محکمے محض نوٹیفکیشن جاری کرکے بری الزمہ سمجھتے ہیں خود کو .

اس سلسلہ میں ایڈیٹر ”اردو پوائنٹ“اور وزارت ماحولیات اور یواین ڈی پی کی ”ماحولیاتی آلودگی کے اسباب اور اتدارک“ کے عنوان سے 2015 میں شائع کردہ رپورٹ کے شریک مصنف میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ آج 7سال گزرنے کے باوجود بھی کسی حکومت نے اس رپورٹ کو ہاتھ تک نہیں لگایا ہوگا ہم نے اس رپورٹ میں تفصیل سے فضائی آلودگی کی وجوہات‘اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کی سفارشات کی تھیں مگر صرف دومرتبہ ان سے مختلف صوبائی حکومتو ں کی جانب سے رابط کرکے اس پر پریزنٹیشن دینے کی درخواست کی گئی .
انہوں نے کہا کہ یہ ہماری سنجیدگی کا عالم ہے انہوں نے کہا کہ ہم معاملے کی سنجیدگی کو سمجھنا ہوگا لاہور دوبڑے مسائل کا شکار ہونے جارہا ہے ایک فضائی آلودگی جو حقیقت بن کر ہمارے سامنے آچکی ہے جبکہ دوسرا مسلہ پانی کی قلت ہے اس پر ماہرین کی کئی مفصل رپورٹس موجود ہیں کہ لاہور میں زیرزمین پانی کی کمی بڑااہم مسلہ بنتی جارہی ہے اور آنے والے چند سالوں میں لاہور کے شہری بھی کراچی کی طرح پانی کے ٹینکرزخریدنے پر مجبور ہونگے انہوں نے کہا کہ ہمیں معاملات کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا پاکستان دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید خطرات سے دوچار سرفہرست تین ممالک میں سے ہے ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہمارے گلیشئرزتیزی سے پگھل رہے ہیں اور پہاڑوں پر برفباری کے ”پیٹرن“میں بھی نمایاں تبدیلیاں نوٹ کی گئی ہیں کچھ سالوں سے اگر ملک کے کچھ حصوں میں شدید بارشیں تباہی مچاتی ہیں تو کچھ حصے شدید ترین خشک سالی کا شکار رہتے ہیں ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے پاکستان کو خوراک کے معاملے میں بھی چیلنجزکا سامنا ہے.
انہوں نے کہا کہ امسال اکتوبر میں ہواﺅں کا رخ چونکہ مغرب سے مشرق کی یا شمال سے جنوب کی طرف ہے لہذا بھارت سے آنے والی”اسموگ“ کی آمیزش کا کوئی امکان نہیں لہذا لاہور میںصبح اور شام کے وقت کئی علاقوں میں دھند جیسی نظرآنے والی شے خالصتا فضائی آلودگی ہے جس میں اسموگ کی آمیزش بالکل نہیں پائی گئی. میاں ندیم نے کہا کہ میٹ آفس کی رپورٹ 20اکتوبرکی صبح شہر میں ہوا کی نمی54فیصد جبکہ حد نظرصرف3کلومیٹر تھی جو کہ ہوامیں نمی اور خشک موسم کی مناسبت سے انتہائی کم ہے اگرفضائی آلودگی سرخ لکیرپر نہ ہوتو 54فیصد نمی کے ساتھ حد نظر10کلومیٹرسے زیادہ ہونی چاہیے انہوں نے کہا کہ ہوا میں نمی کے تناسب کو دیکھیں تو دھند کا امکان نہیں لہذا ماہرین کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسے فضائی آلودگی ہی مانیں ان کا کہنا ہے کہ ہوا میں اتنی زیادہ آلودگی کے دوران اگر ہواﺅں کا رخ بدل کرمشرق سے مغرب کی جانب ہوگیا تو بھارت سے آنے والی اسموگ کی آمیزش سے صورتحال مزید تشویشناک ہوجائے گی .

ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“نے کہا کہ ہمارے گلیشئرزبہت تیزی سے پگھل رہے ہیں یعنی ہمارے میٹھے پانی کے قدرتی ذخائربڑی تیزی سے ضائع ہورہے ہیں مگر اس دوران کسی بھی حکومت نے اس تباہی کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیئے ایک عرصے سے موحولیات اور موسمیاتی تبدیلیاں میرا موضوع رہی ہیں اگر ہم زرعی زمینوں کو برق رفتاری سے رہائشی کالونیوں اور شہروں کو کنکریٹ اور گاڑیوں کے جنگلوں میں بدلتے رہیں گے تو اس کے نتائج انتہائی ہلاکت خیزہونگے آج وہی خدشات حقیقت بن کر ہمارے سامنے آرہے ہیں بڑے شہر قابو سے باہر ہورہے ہیں جبکہ دیہات اور کھیت ‘کھلیان ویران اور 1919کے” گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ“کے تحت کام کرنے والی حکومتیں اور انتظامی ڈھانچہ سارے امورسے لاتعلق نظرآتاہے انہوں نے کہا کہ ہماری حکومتیں اور محکمے یہ کہہ کرجان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بھارت اور چین کی فضائی آلودگی ہمیں متاثرکررہی ہے یقینا یہ ایک حقیقت ہے مگر اس بات کو نظراندازکردیا جاتا ہے کہ 1980کی دہائی میں بھی نہ صرف چین اور بھارت بڑی مقدار میں گرین ہاﺅس گیسیں پیدا کررہے تھے بلکہ ہماری مقامی صنعتیں بھی پوری رفتار سے چل رہی تھیں مگر صورتحال اس قدر خراب نہیں تھی جتنی آج ہے کیونکہ اس وقت بڑے شہروں کے گرد نواحی دیہات قائم تھے‘درختوں کی بہتات تھی جبکہ آج کے مقابلے میں گاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں.
انہوں نے کہا کہ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ حکمران اشرافیہ کی ہوس زرنے پورا کلچربدل کررکھ دیا رہائشی کالونیاں نواحی دیہاتوں‘جنگل‘بیلوں اور درختوں کو نگل گئیں کارفناسنگ پالیسی ہمارے لیے زہرقاتل ثابت ہوئی آج ماہرین اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ گاڑیاں کسی طور پر بھی صنعتوں سے کم آلودگی پیدا نہیں کررہیں مگر ہماری حکومتیں اور ان کے ”بنک کار“مشیران کسی طور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں یہ ایک بڑی سادہ سی سائنسی حقیقت ہے کہ جو بھی مشین کسی فیول یا بجلی سے چلتی ہے وہ درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے میں اپنا حصہ ڈالتی ہے ایئرکنڈشنراگر کمرے یا عمارت میں ٹھندک پیدا کرتے ہیں تو فضامیں وہ اس ٹھنڈک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ گرمائش چھوڑتے ہیں اسی طرح گاڑیاں ہیں جو بیک وقت کئی طرح کی خطرناک کیسوں کا امتزاج فضامیں خارج کرتی ہیں ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک خود سے جھوٹ بولتے رہیں گے ؟کب تک خود کو دھوکا دیتے رہیں گے؟.

میاں محمدندیم نے کہا کہ لاہور کے انیس سو اسی کا دہائی کے نقشے کا آج کے شہر سے موازانہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کروڑوں درخت کٹ چکے ہیں‘لاکھوں زہراگلتی گاڑیاں اور مشنیں شہری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں جس کے اثرات ہم بھگت رہے ہیں صرف دریائے راوی کے ”بیلے“ سینکڑوں ایکٹر پر پھیلے تھے آج ان کا ایک درخت بھی نہیں نظرآتا باغات کا شہر لاہور آج کوڑے‘گردوغبار اور آلودگی سے بھرا شہر بن چکا ہے کیونکہ لاہور کے نواح میں کہیں پر بھی سبزہ نہیں رہنے دیا گیا اور تمام نواحی دیہات کو بڑی بڑی طاقتور رہائشی کالونیاں نگل چکی ہیں.

Previous Post
Next Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »